Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کراچی کی جیلوں سے جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ہو گیا ہے؟

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی جیلیں جرائم پیشہ افراد کی تربیت گاہوں کے طورپر جانی جاتی رہی ہیں۔ 
ان جیلوں میں موجود بعض قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات کسی ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس سے کم نہیں۔ 
آئی جی جیل خانہ جات سندھ قاضی نظیر احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ کراچی کی جیلوں میں ایسا وقت بھی گزرا ہے جب سپرنٹینڈنٹ جیل سمیت دیگر عملے کا قیدیوں کی اجازت کے بغیر جیل میں داخلہ ممنوع تھا۔
قاضی نظیر کے مطابق کراچی کی جیلوں میں مختلف سیاسی و مذہبی گروہوں سمیت جرائم پیشہ افراد کے منظم نیٹ ورک موجود رہے ہیں اور قیدیوں کی جیل میں بیرکوں کی تقسیم بھی سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر تھی۔
کراچی پولیس کے ایک افسر کے مطابق جیلوں سے چلنے والے منظم گروہوں کی سیاسی وابستگی رہی ہے جب کہ لیاری گینگ سمیت مذہبی گروپس اپنا نیٹ ورک جیلوں سے چلاتے رہے ہیں۔ کئی پولیس اہلکاروں سمیت اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی، ٹیموں کی تشکیل اور ان منصوبوں پر عمل درآمد  تک جیلوں کے اندر سے ہوا ہے۔ ایسی وارداتوں کی تعداد کم از کم ایک درجن ہے۔
قاضی نظیر  کے مطابق ’آج سے کچھ سال پہلے تک جیلوں کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔ کوئی سپاہی اپنی مرضی سے جیل کے اندر نہیں جاسکتا تھا۔ یہاں تک کے سپرنٹنڈنٹ بھی بااثر قیدیوں کی اجازت کے بغیر جیل میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ بیرکوں کی تقسیم سیاسی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ جیل انتظامیہ بہت کمزور تھی، طاقتور قیدی حاوی تھے اور انتظامیہ کو ڈکٹیشن دیتے تھے۔
’انتظامیہ ان کے خوف کے باعث دباؤ میں تھی جب کہ کسی حد تک رشوت کے لالچ میں بھی بدنیتی کا شکار تھی۔‘

آپریشنز کے دوران جیل سے موبائل فون سمیت دیگر کئی الیکٹرانک آئٹمز بھی برآمد کیےگئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جیلوں کے اندر بھی امن و امان کی صورتحال کئی مرتبہ متاثر ہوئی ہے۔ 
ان سارے عوامل پر قابو پانے اور جیلوں سے مختلف جرائم پیشہ، سیاسی، لسانی اور عسکری گروہوں کے خاتمے کے لیے مختلف ادوار میں کئی آپریشنز کیے گئے۔
اسی طرح کا ایک بڑا آپریشن 2013 میں بھی کیا گیا تھا۔ ان آپریشنز کے دوران جیل سے موبائل فون سمیت دیگر کئی الیکٹرانک آئٹمز بھی برآمد کیے گئے تھے۔ 

’اب قیدی موبائل فون کے ذریعے باہر رابطہ نہیں کر سکتے‘

قاضی نظیر کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے بعد سے جیلوں کی صورتحال میں بتدریج بہتری آئی ہے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ جیل کے اندر سے ہونے والی وارداتوں کو ختم کرنے کے لیے جیمرز لگانے کی حکمت عملی موثر ثابت ہوئی ہے۔
 اب’قیدیوں کو ان کی سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ کیے گئے جرائم کی کیٹیگری کے حساب سے بیرکوں میں رکھا جاتا ہے۔ اب جیل میں کوئی پارٹی سسٹم فعال نہیں ہے۔ جو گروپ بندی کا تاثر تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے۔‘

لیکن کیا واقعی جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ہو گیا ہے؟

یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے جیل کے اندر جا کر کچھ قیدیوں سے ملاقاتیں کیں۔
ان قیدیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جیل میں صورتحال اب پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے لیکن یہاں پارٹی سسٹم اب بھی موجود ہے، تاہم یہ اب پہلے کی طرح فعال نہیں ہے۔ 
قیدیوں کے مطابق جیل میں اب بھی پیسوں کا سسٹم چلتا ہے۔ پیشی پر جانے اور کورٹس میں اہلخانہ سے ملاقات سمیت سامان کے جیل کے آنے پر چلنے والا نظام اب بھی اسی طرح چل رہا ہے۔

رواں سال دعا منگی کیس کے اہم ملزم ذوہیب قریشی کو پولیس جوتے دلوانے ایک مال لیکر گئی تھی جہاں سے وہ باآسانی فرار ہوگیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 حال ہی میں سامنے آنے والی چند رپورٹس کے مطابق جیل انتظامیہ کی مبینہ غفلت، لاپرواہی اور نااہلی کی وجہ سے نہ صرف کئی خطرناک قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے جیل کے اندر نئے سرے سے اپنے منظم نیٹ ورک بھی قائم کیے ہیں۔ 
اس کےعلاوہ رواں سال دعا منگی کیس کے اہم ملزم ذوہیب قریشی کو پولیس جوتے دلوانے ایک مال لے کر گئی تھی جہاں سے وہ باآسانی فرار ہوگیا تھا۔
ملزم کے فرار ہونے کے بعد تفتیشی حکام نے مجرمانہ غفلت پرغور کیا تو اس دوران سپرنٹنڈنٹ کراچی سینٹرل جیل کی جانب سے 17 اپریل 2021 کو ایس ایس پی کورٹ پولیس کو لکھا گیا ایک خط سامنے آیا جس نے کئی سوالات کو جنم دیا۔
اس خط میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پولیس نیب سمیت اہم مقدمات کے قیدیوں کو پرائیویٹ کاروں میں گھر تک لے جانے اور واپس لانے کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔
تاہم محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے انچارج راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ جب سیاسی بنیادوں پر جرم ہوتا ہے اور اس کے ملزمان جب جیل جاتے ہیں تو باہر کے سیاسی معاملات اور جیل میں مجرمانہ سرگرمیوں میں گہرا تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔
’اس کی وجہ سے جیل کا عملہ اور جو سینئر افسران ہوتے ہیں وہ بہت دباؤ میں آ جاتے ہیں۔‘

شیئر: