Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقامہ ایکسپائر ہے، کفیل تجدید نہ کروائے تو کیا کرنا چاہیے؟

ٹوئٹر پر پوچھے جانے والے سوالات کے جواب جوازات کی جانب دے دیے گئے ہیں (فوتو: جوازات)
سعودی عرب میں غیرملکی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود آبادی کی جانب سے خصوصی ادارے قائم کیے گئے ہیں جہاں کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں فوری تحقیقات اور کارروائی کی جاتی ہے۔ 
ایسے افراد جنہیں اپنے سپانسرز سے کسی قسم کا اختلاف ہو، انہیں چاہیے کہ وہ معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ اگریہ کوشش بے فائدہ ہو تو بغیر کسی تاخیر کے لیبرکورٹ کے مقررہ ادارے سے رجوع کرتے ہوئے درخواست دائرکریں تاکہ بعد میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 
ایک شخص نے جوازات سے دریافت کیا ’میں نجی سکول میں ٹیچر کے طور پر کام کررہا ہوں، اقامہ ایکسپائر ہوئے سال ہونے کو ہے، کفیل کچھ نہیں کر رہا، اس میں صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘ 
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جوازات کی جانب سے کہا گیا کہ وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود آبادی سے رجوع کرکے اپنے مسئلے کے بارے میں تحریری طورپرمطلع کریں تاکہ کفیل کو طلب کرکے اقامہ کی تجدید کرائی جا سکے۔
خیال رہے سعودی قانون محنت کے تحت غیرملکی کارکن کے اقامے کا اجرا اور اس کی سالانہ تجدید کفیل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کفیل اس امر کا پابند ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت آنے والے غیرملکیوں کو اقامہ کے علاوہ طبی سہولت بھی فراہم کرے، جس کے لیے میڈیکل انشورنس کا قانون نافذ ہے۔ طبی انشورنس کے بغیر اقامہ کی تجدید نہیں ہو سکتی۔ 

خروج وعودہ پرجا کرمقررہ وقت پرواپس نہ آنے والوں کو تین برس کے لیے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے: (فوٹو: ایس پی اے)

اسی طرح قانون کے مطابق اقامہ ایکسپائرہونے کے تین دن بعد جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اگر اقامہ کفیل کی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے ایکسپائر ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی کفیل پرہی ہوتی ہے کیونکہ قانون کے مطابق تجدید کفیل کے ذمہ ہوتی ہے۔
ٹوئٹر پر جوازات پر ایک شخص کی جانب سے پوچھا گیا کہ ’کیا سائق خاص پربھی خروج وعودہ کے قانونی کا اطلاق ہوتا ہے؟‘ 
اس کے جواب میں جوازات کا کہنا تھا کہ سائق خاص ہو یا کمرشل ملازم، تمام غیرملکی کارکنوں پرخروج وعودہ کی خلاف ورزی یکساں طور پر لاگو ہوتی ہے۔ 
خروج وعودہ پرجا کرمقررہ وقت پرواپس نہ آنے والوں کو مملکت میں تین برس کے لیے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔ ایسے افراد ممنوعہ مدت کے دوران کسی دوسرے ورک ویزے پر مملکت نہیں آ سکتے۔ البتہ اگران کا سابق کفیل دوسرا ویزہ جاری کرے تو اس صورت میں وہ پابندی کی مدت کے دوران مملکت آ سکتے ہیں، بصورت دیگر تین برس گزرنے کے بعد ہی دوسرے ورک ویزے پرانہیں مملکت آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 
سعودی عرب میں محنت کے قوانین واضح ہیں۔ مملکت میں ورک ویزے پر مقیم دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو خروج وعودہ کے قانون کے بارے میں بخوبی آگاہی ضروری ہے۔ 

قانون محنت کے تحت غیرملکی کارکن کے اقامے کا اجرا اور تجدید کفیل کی ذمہ داری ہوتی ہے (فوٹو: جوازات)

بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ وہ خروج وعودہ پرجانے کے بعد دوسرے ویزے پرفوری طورپرمملکت آ سکتے ہیں، جوغلط ہے ایسا کرنے والوں کو ائرپورٹ سے ہی ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔ 
خروج وعودہ پرجا کرواپس نہ آنے والوں کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ کس تاریخ کومملکت سے گئے تھے۔
دوسرا اہم نکتہ جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکارہوجاتے ہیں وہ یہ کہ سعودی عرب میں اقامہ اور خروج وعودہ کا نظام ہجری کیلینڈرکے حساب سے کیا جاتا ہے، جسے قمری کیلینڈربھی کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے خروج وعودہ کی مدت کا تعین کرنا ضروری ہے اور وہ بھی سعودی عرب میں مروجہ کیلنلڈرکے حساب سے تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ 

خروج وعودہ پرجانے کے بعد دوسرے ویزے پرفوری طورپر مملکت نہیں آیا جا سکتا (فوٹو: اے ایف پی)

عام طور پرقمری تاریخوں میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں قمری مہینے کا آغاز پاکستان یا انڈیا سے ایک یا دو دن قبل ہوتا ہے اس لیے جو افراد اپنے ملک کے قمری کیلنڈر کے حساب سے دنوں کا شمار کرتے ہیں وہ غلطی کا ارتکاب کرجاتے ہیں۔ جس کے بعد انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جوازات کے مرکزی کمپیوٹرمیں سعودی عرب میں قمری تاریخوں کے حساب سے معاملات انجام دیے جاتے ہیں۔ 

شیئر: