شریعت اور فقہاء کی اصطلاح میں قیاس سے مراد یہ ہے کہ اصل حکم میں پائے جانے والی علت کو دوسرے نئے حکم پر منطبق کرناہے
* *گزشتہ سے پیوستہ* * * *
- - - - - - - -
مولانا محمد انس حسان۔ جہانیاں، پاکستان
- - - - - - -
جہاں تک اجماع کے شرعی حکم کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کا فیصلہ نہایت مستند اور واجب العمل ہے، جیسا کہ صاحبِ توضیح کا یہ قول ہے : ’’جب مجتہدین نے کسی زمانہ میں کسی حکم کا استنباط اور اس پر اتفاق کیا تو اس زمانہ والوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے، اس کی مخالفت جائز نہیںکیونکہ یہ اتفاق اس حکم پر بطور دلیل کے ہے۔‘‘( تاج الشریعہ عبید اللہ بن مسعود،التوضیح و التلویح مع الحاشیۃ التوشیح،ص43)۔
عصرِ حاضر میں اجماع کی واضح مثال مسئلۂ ختم نبوت ہے جس پر تمام علماء و فقہاء کا اجماع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء دورِ حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز پر بھی اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امت کی درست سَمت پر رہنمائی کریں۔ قیاس(فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ): فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ قیاس ہے۔ قیاس کے لغوی معنیٰ اندازہ کرنا، پیمائش کرنا، مطابق اور مساوی کرنا ہیں، چنانچہ ’’قَاسَ الثَّوْبَ بِالذِّرَاعِ‘‘ کے معنیٰ ’’ قَدَّرَ أجْزَائَہ بِہ ‘‘ (کپڑے کی ذراع سے پیمائش کی) ۔اسی طرح ’’ یُقَاسْ فُلاَنٌ بِفُلاَنٍ فِیْ الْعِلْمِ وَالنَّسَبِ‘‘ کے معنیٰ ’’ یُسَاوِیْہِ فِی الْعَلْمِ وَالنَّسَبِ‘‘ (علم اور نسب میں وہ اس کے برابر ہے)(محمد تقی امینی،اجتہاد،ص141,140)۔ قیاس کا لفظ 2چیزوںمیں مساوات و برابری نیز2 چیزوں کے مابین موازنے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے(ڈاکٹر سعید الرحمن،استحسان(بحیثیت ماخذ قانون)مقالہ پی ایچ ڈی،صفحہ207)۔ اصطلاح ِ فقہ میں قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملحق کرنا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (فقہ کہلاتی ہے)‘‘(ابن قدامہ’’روضۃ الناظر و جنۃ المناظر،ج2،ص227)۔ محمد بن صالح العثیمنؒ کے مطابق: ’’فرع اور اصل میں حکم کی علت کی بنیاد پر برابری کرنا جو ان دونوں میں یکساں ہیں۔‘‘(شرح الاصو ل من علم الاصول،ص509)۔ مولانا محمد تقی امینی فرماتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے قیاس کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے: ’’قیاسِ صحیح مثلاً یہ ہے کہ جس علت پر اصل میں حکم کا مدار ہے وہی علت فرع میں موجود ہو اور فرع میں کوئی رکاوٹ ایسی نہ ہو جو اس میں حکم جاری ہونے کو روک سکے۔‘‘(محمد تقی امینی،اجتہاد،ص141)۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒنے قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ’’شریعت اور فقہاء کی اصطلاح میں قیاس سے مراد یہ ہے کہ اصل حکم میں پائے جانے والی علت کو دوسرے نئے حکم پر منطبق کرنا (قیاس کہلاتا ہے)‘‘( محاضراتِ فقہ،ص96)۔ جمہور علماء و فقہاء اسے حجتِ شرعی تسلیم کرتے ہیں بلکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تو اسے فقہی ترتیب میں تیسرے درجے پر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ اس کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی اس لئے اس کا درجہ اجماع سے زیادہ ہونا چاہیے(ایضاً)۔ محمد بن صالح العثیمن ؒکے مطابق قیاس تمام علماء کے نزدیک دلیلِ شرعی ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’جمہور امت کے بقول قیاس دلیلِ شرعی ہے، جو قرآنِ کریم، سنتِ رسول اور صحابہ کرامؓ کے اقوال سے ثابت ہے۔‘‘(شرح الاصو ل من علم الاصول،ص512)۔ قیاس فقہ اسلامی کا انتہائی اہم ماخذ ہے۔ زمانہ چونکہ تغیر پذیر ہے اور ہر آنے والا دن نئے مسائل اور نئے چیلنجز کے ساتھ رونما ہورہا ہے تو اس صورت میں فقہ اسلامی کا دیگر تمام مذاہب میں یہ خصوصی امتیاز ہے کہ وہ ان جدید مسائل کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔ اسلامی شریعت نے ایک ایسا خود کار نظام وضع کردیا کہ جس میں قانون اور نظام کے اساسی قواعد و اصول نیز دستور اور آئین کے اساسی تصورات سب کیلئے مشترک اور واجب التعمیل ہیں۔ تمام انسان یکساں طور پر ان اصولوں کے پابند ہیں۔ اس جامعیت اور تنوع کی وجہ اس کی دقَّتِ نظری اور آزادیٔ رائے ہے جو ہر دور میں اس کی ترقی کیلئے ممدو معاون ثابت ہوتی آئی ہے۔ اگر ایک دور میں کسی مسئلہ پر قیاس سے کام لیتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذ کیا گیاتھا اور آنے والے وقت نے اس کی کسی شق پر کوئی سْقم پایاتو اس دور کے فقہاء کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے قیاس سے کام لیتے ہوئے اس مسئلہ کا کوئی اور حل تجویز کریں جو قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو۔ اس کی بکثرت مثالیں ہمیں فقہ اسلامی کی کتب میں ملتی ہیں۔ اس آزادیٔ رائے نے فقہ اسلامی کی اہمیت میں بہت اضافہ کردیا ہے اور یہ سب قیاس سے استفادہ کی صورت ہی میں ممکن ہوسکا ہے۔قیاس کی اسی اہمیت و افادیت کے حوالے سے قرآنِ کریم، سنت نبوی اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے بہت کچھ رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم میں قیاس کی بنیاد کے حوالے سے درج ذیل آیاتِ مبارکہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ٭تاکہ دین میں فہم و بصیرت حاصل کرتے(التوبہ(۔ ٭پس اے دیکھنے والو! عبرت حاصل کرو(الحشر2)۔ آیتِ کریمہ میں’’اِعْتَبَرَ‘‘ کا مطلب ہے ’’رَدَّ الشَّیْئَ الٰی نَظِیْرِہ ‘‘یعنی: کسی چیز کو اس کے مثل کی طرف لوٹانا۔ ٭اوروہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں(الجمعہ2)۔ ٭ہم نے آپ() پر قرآن اتارا تاکہ آپ() لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کردیں جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے ،تاکہ وہ خود غوروفکر کریں(النحل44)۔ ٭’’اگر اس کو اللہ کے رسول() اور اہل علم تک پہنچادیتے تو ان میں سے جو استنباط کرنیوالے ہیں وہ سمجھ جاتے۔‘‘(النساء83)۔ یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی آیات ہیں جن میں قیاس اور فکر و شعور کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے: ¤ قیاس کی دلیل نبی کریم کے عمل سے بھی ملتی ہے چنانچہ جب نبی کریم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیج رہے تھے تو پوچھا: ’’جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا جیسا کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا پھر سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کرو ں گا۔
پھر سوال کیا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کروگے؟ جواب دیا ایسی حالت میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے فیصلہ کروں گا۔اس پر رسول اللہ خوش ہوئے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فرستادہ رسول() کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول() کو پسند ہے۔‘‘(سنن ترمذی،ج3،ص616)۔ ¤ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ دونوں کو یمن کے الگ الگ علاقوں کا قاضی و گورنر بناکر بھیجاگیاتھا اور آپکے استفسار پر دونوں نے جواب دیاتھا کہ : ’’جب ہم سنت میں حکم نہیں پائیں گے تو ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کریں گے اور جو فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوگا، اسی پر عمل کریں گے۔
اس پر نبی کریمنے فرمایا: تم دونوں کی رائے درست ہے۔‘‘( محمد بن عمر الحسین الرازی،المحصول فی علم الا صول،ج5،ص52)۔ ¤ اسی طرح بلی کے جھوٹے کے بارے میں دریافت کیاگیا توآپ نے فرمایا کہ یہ حرام نہیں اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ لوگوں کے گھروں میں کثرت سے آتی جاتی ہے(سنن ابو داؤد،ج1،ص19)۔ ¤ نبی کریم نے ابتداء میں قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع فرمایاتھا لیکن بعد میں اس کی اجازت دیدی۔( الجامع الصحیح للبخاری،ج5،ص2116)۔ ¤ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کے رشتے کے بارے میں پوچھاگیا تو فرمایا :وہ میری رضاعی بھتیجی ہے اور میرے لئے درست نہیں (الجامع الصحیح للمسلم،ج4،ص164)۔ چنانچہ آپ نے انھیں سگی بھتیجی پر قیاس کیا یعنی حرمت کی علت بھی بتادی۔ ¤ قبیلۂ خشعم کی ایک عورت نبی کریم کی خدمت میں آئی اورکہا میرے والد نے اسلام قبول کرلیا ہے اور وہ بہت زیادہ بوڑھے ہیں۔سواری پر بیٹھ نہیں سکتے اور حج ان پر فرض ہوگیا ہے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے! اگر تمہارے والد پر قرض ہوتاتو وہ تم ادا کرتی یا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! ادا کرتی، اس پر آپنے فرمایا: پھر ان کی طرف سے حج ادا کرو(المسندلامام احمد بن حنبل،ج1،ص286)۔ گویا بندے کے قرض پر اللہ کے قرض کو قیاس فرمایا۔ ¤ ایک بدوی نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے ہاں ایک کالے رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے لیکن مجھے اس میں شک ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا سرخ۔ آپنے پھر پوچھا کہ ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں؟ اس نے کہا: ہاںہیں۔ آپ نے پوچھا: یہ کہاں سے آگئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہوتی ہے، اس کا اثر آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اس بچے کے ساتھ بھی یہی صورت ہوسکتی ہے (اللؤلووالمرجان،ج1،ص446)۔ گویا نبی کریمنے حیوانی وجود پر انسانی وجود کو قیاس کیا۔ نبی کریم نے قیاسِ صحیح کی اجازت دی تھی اور اس پر اجر کا اعلان فرمایاتھاچنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے: ’’حاکم جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دہرا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو ایک اجر ملتا ہے۔‘‘(الجامع الصحیح للمسلم،ج5،ص133)۔
ایک اور جگہ یہ روایت الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یوں وارد ہوئی ہے: ’’قاضی جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو10گنا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کیلئے 2اجر ہیں۔‘‘(الجامع الصحیح للبخاری،ج2،ص2676)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی قیاس سے بھرپور فائدہ اٹھایا چنانچہ نئے پیش آنے والے واقعات میں اجتہاد کرتے ہوئے ایک حکم کو دوسرے پر قیاس کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو خط لکھاتھا کہ جو واقعہ تمہیں پیش آئے اور اس کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہوتو اس پر خوب سوچو اور اس کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرو،پھر ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرو۔ معاملات کو مختلف انداز سے پہچانو،پھر جو تمہاری رائے میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور حق کے قریب ہوتو اسکااعتبار کرو(مجمع الزوائد،ج4ص،362)۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ’’کلالہ‘‘ (جس کے نہ والدین ہوں نہ اولاد) کی وراثت کے متعلق پوچھاگیاتو فرمایا: ’’میں اپنی رائے سے بات کہتا ہوں ،اگر وہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو۔‘‘ (اعلام الموقعین، ج1،ص63) اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے طلاق لینے کے اختیار کے متعلق فرمایا: ’’میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں۔ اگر صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے، اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں۔‘‘(نورالانوار،ص250)۔ قیاس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بعض اوقات کسی ایک مسئلہ پر اختلاف بھی رہا ہے چنانچہ اس حوالہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے جو قیاس کیا اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: « دادا کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھائیوں کو وراثت نہیں دلواتے تھے لیکن حضرت عمرؓنے دادا کی موجودگی میں بھی بھائیوں کو وراثت دلوائی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے دادا کو باپ تسلیم کیا ہے اور باپ کی موجودگی میں بہ نصِ قرآن بھائیوں کو وراثت نہیں ملتی۔ حضرت عمر ؓ نے اس کو باپ تسلیم نہیں کیا اور حضرت زید بن ثابت ؓ بھی ان کے ساتھ متفق الرائے ہیں (عبد السلام ندوی:تاریخ فقہ اسلامی، ص155)۔ « جس حاملہ عورت کا شوہر مرجائے اس کی عدت حضرت عمر بن خطاب ؓ نے وضع حمل مقرر کی ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ وضعِ حمل اور 4 مہینے10 دن کی مدت میں جو زمانہ زیادہ طویل ہوگا وہی اس کی عدت کا زمانہ ہوگا (ایضاً،ص152)۔ « ایک مطلقہ عورت جس نے اپنی عدت ہی میں نکاح کرلیاتھا حضرت عمر ؓ نے اسکے موجودہ شوہر کو چند کوڑوں کی سزا دے کر دونوں میں علیحدگی کرادی اور فرمایا کہ جو عورت عدت گزرنے سے پہلے نکاح کرلے اور اسی حالت میں اس سے مقاربت کرلی جاے تو اس شوہر پر وہ ہمیشہ کیلئے حرام ہوجاتی ہے لیکن حضرت علی ؓ کے نزدیک پہلے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد یہ شخص اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کا یہ فیصلہ مصلحتِ عامہ کی بناء پرتھاجبکہ حضرت علی ؓ کا فیصلہ اصولِ عامہ کی بناء پر تھا۔حالات کے لحاظ سے روحِ شریعت میں دونوں کی گنجائش ہے( محمد تقی امینی:اجتہاد،ص56)۔