سیاسی بحران: ’پرویز الٰہی آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے‘
سیاسی بحران: ’پرویز الٰہی آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے‘
جمعرات 19 مئی 2022 6:01
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ماہرین کے مطابق موجودہ صورت حال میں گورنر وزیراعلٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ سکتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے منحرف اراکین سے متعلق فیصلے کے بعد پنجاب میں سیاسی صورت مزید بگڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک تو اس فیصلے کے نتیجے میں حمزہ شہباز کی حکومت پر کئی طرح کے قانونی سوال کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے وزیراعلٰی بننے میں تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہی منحرف اراکین اس وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کی زد میں ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس سیاسی بحران میں چوہدری پرویز الٰہی بھی ایک متاثرہ فریق ہیں۔ تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سب کی نظریں تو حمزہ شہباز پر چلی گئیں ہیں تاہم حمزہ سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا چوہدری پرویز الٰہی کو ہے۔
’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر اس کا اطلاق پنجاب میں کرنا ہے تو اس کا ایک آئینی طریقہ کار ہے جس کے مطابق صوبے کا گورنر وزیراعلٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے گا۔‘
خیال رہے کہ اس وقت پنجاب میں مستقل گورنر کا عہدہ خالی ہے جبکہ وفاقی حکومت نے سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو قائم مقام گورنر تعینات کر رکھا ہے تاہم انہوں نے ابھی تک اس عہدے کا چارج نہیں سنبھالا۔
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہی وہ صورت حال ہے جو اب پرویز الٰہی کے لیے مشکل کا سبب بنے گی۔ ’اگر وہ حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں گورنر کا عہدہ سنبھالنا ہوگا۔
’جیسے ہی وہ یہ کریں گے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری پنجاب اسمبلی کے سپیکر بن جائیں گے جو پرویز الٰہی کے خلاف اسمبلی میں جمع عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ بھی وہ کروا سکتے ہیں۔ اس طرح گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پرویز الٰہی وزیراعلٰی کے انتخاب میں حصہ بھی نہیں لے سکیں گے۔‘
پاکستان کے مروجہ آئین کے مطابق اگر کوئی وزیراعظم یا وزرات اعلٰی کا امیدوار سادہ اکثریت نہیں لے سکتا تو دوبارہ ووٹنگ کے ذریعے اسمبلی میں اکثریت رکھنے والا امیدوار کامیاب تصور ہوگا۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ پرویز الٰہی آسمان سے گر کر سیدھے کھجور میں اٹک جائیں گے، اور اب ان کی سیاست صرف اور صرف تحریک انصاف کی مرہون منت ہوچکی ہے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے 25 اور مسلم لیگ ن کے 4 اراکین اسمبلی وزیراعلٰی کے اعتماد کے ووٹ میں ووٹنگ کے عمل کا حصہ نہیں بن سکیں گے جس کےبعد فریقین کی نمبر گیم تقریباً ایک دوسرے کے برابر ہوجائے گی۔
مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سپیرم کورٹ کے فیصلے بعد ان کی جماعت قانونی مشاورت کر رہی ہے اور جلد اپنا لائحہ عمل مرتب کرے گی۔
’یہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ پرویز الٰہی مشکل میں ہیں یہ ان کی بھول ہے۔ ڈی سیٹ ہونے والے 25 اراکین میں سے پانچ سیٹیں خواتین اور مخصوص نشستوں کی ہیں۔ جو فوری نوٹیفائی ہو جائیں گے تو نمبر گیم ہمارے حق میں آجائے گی۔‘
پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر عنبرین جاوید کا البتہ یہ کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث پہلے سے موجود سیاسی بحران اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔
’میں سمجھتی ہوں کہ یہ کسی کے لیے بھی خیر کی خبر نہیں ہوگی۔‘ ان کے مطابق ’اصل بات یہ ہے کہ پنجاب ڈیڑھ ماہ سے تقریباً حکومت کے بغیر ہے اور اس کے 11 کروڑ عوام براہ راست اس سے متاثر ہو رہے ہیں، اس طرف کوئی بھی نہیں دیکھ رہا۔‘
’اس فیصلے کے باوجود اس بات کا احتمال ہے کہ اگر دوبارہ الیکشن یا اعتماد کے ووٹ کی بات آتی ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کا دورازہ نہیں کھلے گا؟ ایک آدھے ووٹ پر معاملہ آلٹکا ہے اور مخالفین کے مزید ووٹ کم کرنے کی نئی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حمزہ شہباز کی حکومت کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہم نے بھی منصوبہ بندی کرلی ہے۔‘
’ابھی الیکشن کمیشن سے فیصلہ آنا ہے اور ہمارا تو کیس ہی یہی ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین تکنیکی اور قانونی طور پر منحرف نہیں ہیں اس لیے اس فیصلے کا اطلاق ان پر ہوگا ہی نہیں۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں سیاسی کھیل ایک بار پھر گرم ہوگیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ان سے ملاقات کی اور آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات کے بعد ایک بیان بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’ تحریک انصاف کی سینیئر قیادت کی سپیکر چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی ہے۔ ملاقات میں سبطین خان، ڈاکٹر مراد راس، مخدوم ہاشم جواں بخت اور سید علمدار عباس شریک تھے۔
بیان کے مطابق ملاقات میں آئندہ کے آئینی اور قانونی آپشنز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز کی جعلی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ حمزہ شہباز فوری طور پر وزیراعلٰی آفس چھوڑ دیں۔ اس وقت ایوان وزیر اعلٰی میں حمزہ شہباز کی حیثیت قبضہ گروپ کی سی ہے۔‘
دوسری طرف وزیراعلٰی حمزہ شہباز نے بھی نئی صورت پر ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ن لیگ کی طرف ایک پریس کانفرنس بھی کی گئی جس میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز کہیں نہیں جا رہے اور ان کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اس کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا کہ حمزہ شہباز جمعرات کو پریس کانفرنس کریں گے۔ اس سے پہلے یہ کانفرنس منگل کی شام 5 بجے ہونا تھی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس موخر کردیا گیا تھا۔
حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے اپنے قانونی مشیروں سے بھی ملاقات کی جس میں نئی صورت حال کا بغور جائزہ لیا گیا۔