سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پرچیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے محفوظ رائے سنائی۔
جسٹس جمال مندوخیل اور مظہر عالم میاں خیل نے فیصلے میں اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
ججز نے اپنی رائے میں لکھا کہآرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں۔ انحراف کرنا سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل کرسکتا ہے۔
رائے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔
عدالتی رائے کے مطابق ’سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے۔ منحرف ارکان کا ووٹ نہیں گِنا جائے گا۔‘
’آرٹیکل 63 اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے اور جماعتوں کو حقوق کا تحفظ ملے۔‘
سپریم کورٹ کے ججز کی رائے میں منحرف ارکان کی نااہلی کے لیے قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔
عدالت نے ہارس ٹریڈنگ روکنے سے متعلق سوال پر رائے دیے بغیر ریفرنس صدر کو واپس بھجوا دیا۔
سپریم کورٹ کے ججز نے تین دو کی اکثریت سے دی جانےوالی رائے میں منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی سے متعلق کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔
’کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن کو منحرف ہونے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں وسیع انداز میں ہونی چاہیے۔‘
جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی اقلیتی رائے کے مطابق آرٹیکل 63 اے میں منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے ریفرنس کو قبول کیا جاتا ہے تو رکن کی سیٹ خالی تصور ہو گی۔
اقلیتی رائے کے مطابق ’آئین پاکستان میں منحرف اراکین کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح کرنا آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔‘
’اگر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی تو اس سے دیگر آئینی شقیں متاثر ہوں گی۔‘
اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے لکھا کہ اس صدارتی ریفرنس پر رائے دینا ہمارا اختیار نہیں ہے، ریفرنس کو بغیر رائے دیے واپس بھجوایا جائے۔ پارلیمنٹ اگر خود سے کوئی سزا یا پابندیاں عائد کرنا چاہے تو وہ آزاد ہے۔