ہم نے نماز والے تحفہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہم اگر کسی کو تحفہ دیں اور اْس کی ناقدری دیکھیں تو جذبات و احساسات کا کیا عالم ہو گا؟
*ڈاکٹر بشریٰ تسنیم۔ شارجہ*
قرآنِ پاک کی سورت بنی اسرائیل کی ابتداء میں اس عظیم واقعہ کا تذکرہ ہے جس کو ’’اسرا ء‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس کو ہم نے برکت عطا کر رکھی ہے تا کہ اسے (رسولِ عربیؐ کو) اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں، یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل 1) سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں بھی معراج شریف کا تذکرہ ملتا ہے۔ نبی کی دعوت و تبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم و ستم کے درمیانی دور سے گزر رہی تھی۔ مکہ مکرمہ کے آخری دور میں حضور اپنے مشن کے دوران وفاتِ ابو طالب، وفاتِ حضرت خدیجہ اور شعب ابی طالب کی جاں گسل سختیوں جیسے عظیم صدمات سے دو چار تھے۔ گویا یہ سال ’’عام الحزن‘‘ تھا۔ حضور کی زندگی میں پے در پے صدمات آئے، سفرِ طائف کا واقعہ وہ ہے کہ سن کر پتھروں میں بھی گداز پیدا ہو جائے۔ خود حضورکی زبان مبارک سے اس دن کی سختی اور شدت کا تذکرہ ملتا ہے۔
اتنی تکلیف، غم و حزن کے عالم میں بھی جب دل پاش پاش تھا حضرت جبرئیل علیہ السلام کو منع کر دیا کہ پتھر دل لوگوں کو پہاڑوں کے درمیان پاش پاش کیا جائے۔ اس اخلاقِ عظیم کی قدر و منزلت زمین و آسمان کے مالک نے اس طرح کی کہ اپنی رحمت و برکت اور منزل تک پہنچنے کے راستے کشادہ کر دیے۔ حوصلہ افزائی اور یقین کی ایک جھلک اس واقعے میں ملتی ہے کہ انسانوں کی بد سلوکی اور ایمان نہ لانا جب دل شکستہ کر رہا تھا تو جنوں کی ایک جماعت نے قرآنِ پاک سنا اور دین اسلام قبول کیا(الجن2,1)۔ یہ طائف کے سفر سے واپسی پر وادیٔ نخلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد بھی تھی اور سکونِ قلب کا باعث بھی۔ نبی کو مبعوث تو دونوں (انسانوں اور جنوں) کی طرف کیا گیا تھا مگر ایک مخلوق نے دکھ دیا تو دوسری نے دل شاد کر دیا ۔
اس تائیدِ الٰہی سے غم و الم اور حزن و مایوسی کے بادل چھٹ گئے۔ اس آن حضور نے اک نئی گرم جوشی، چستی اور توانائی محسوس کی ہو گی اور پھر وہ مکہ کی طرف گامزن ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحیم و شفیق ہے۔ وہ مشکل کام میں پیار، حوصلہ بھی دیتا ہے۔ محبت سے ہاتھ بھی تھامتا ہے۔ دل کو سکون بھی عطا کرتا ہے۔ کام کی تکمیل کی خوشخبریاں بھی سناتا ہے۔
نقد انعام بھی فرماتا ہے۔ محنت کا ثمر بھی دیتا ہے اور اس کا یقین بھی دلاتا ہے۔ جیسے بچوں کو ماں مشقت والا کام کروا کر سینے سے لگاتی، پیار کرتی اور راضی ہو جانے کی خوشخبری سناتی ہے۔ حضورنے مکہ مکرمہ واپس آ کر افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینا شروع کی اور انسانوں کے اس انبوہِ کثیر میں کچھ لوگوں نے بہترین جواب دیا۔ سختیوں کے دور میں یثرب کے چند لوگ اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہوئے اور یہی کرنیں آفتاب کے طلوع ہونے کی پیش گوئی کر رہی تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو مکہ کے دور کی محنتوں پہ شاباش دینے اور اگلی منزل کیلئے ہمت، حوصلہ اور منصوبہ بندی دینے کیلئے اپنے دربار میں بلایا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیا شان ہے اُس عظیم ترین انسان کی جس کو سواری بھیج کر، بہترین رہنما بھیج کر پوری شان کے ساتھ دربار ِعالی میں بلایا جائے۔ اللہ رب العزت نے اپنے نبی خاتم النبیین کو آسمانوں کی سیر کرائی۔
اپنی سلطنت کے دروبام دکھائے، اپنے بندوں کے اچھے برے احوال کا بتایا جیسے محب اور محبوب کی باتیں ہوتی ہیں، اپنے برگزیدہ نبیوں سے ملاقات کرائی، انبیائے کرام کو عین الیقین دلانے کیلئے اللہ تعالیٰ کا یہی قاعدہ ہے ۔ عین الیقین کی ہی کرامت ہوتی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام ایسی سختیاں پورے ایمان کے ساتھ آسانی سے جھیل جاتے ہیں جن کو برداشت کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہجرت سے ایک سال قبل یہ معجزہ رونما ہوا۔ واقعے کو بیان کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد تقریباً 25 ہے۔ آج ہم بحیثیت امتی اس واقعے کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اپنی نشانیاں دکھانے اور اپنی رحمت کی لامتناہی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کیلئے پوری شان و شوکت (پروٹوکول)کے ساتھ بلایا۔
ہمارے لئے بھی یہ کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اگر ہمارے گھر کے سربراہ کو حاکمِ وقت پورے پروٹوکول کے ساتھ ملاقات کا شرف بخشے تو سارے خاندان میں شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ ایک پارٹی کا سربراہ کسی اعزاز کا مستحق ہو تو پوری پارٹی اس کو اپنا اعزاز سمجھتی ہے۔ یہ بھی دستور ہے کہ دربار میں جانے والاکچھ نہ کچھ کارنامے، کوئی ایجاد، کوئی سند، کوئی ڈگری، کوئی کلام لے کر جاتا ہے ۔اپنے ذمہ لگے ہوئے کاموں کی رپورٹ لے کر جانا پڑتا ہے۔ حضور اکرم کی تگ و دو اور کوششوں کا تو یہ عالم تھا کہ خود رب جلیل کو تسلی دینی پڑی کہ : ’’کیا تم ان کی خاطر اپنی جان کو ہلاک کیے دیتے ہو کہ وہ اس تعلیم پہ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ ‘‘(الکھف 6)۔ گویا کہ ایوارڈ تو مل ہی چکا ہے منصب کی ذمہ داری نبھانے کا۔
پیار و محبت سے بلوایا اور اگلی کامیابیوں کے نشان راہ بھی بتائے۔ یہ بھی دستور ہے کہ جب دربارِ عالیہ میں اپنے کسی خاص بندے کو بطور مہمان بلایا جاتا ہے تو اس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جاتا۔ یہاں تو رب کائنات کرم فرما ہے اور امام الانبیا مہمانِ مکرم ہے۔ دینے والا عظیم ترین تو لینے والا بھی انسانوں میں عظیم ترین۔مہمان سے جس قدر محبت ہے اس کے اہل سے بھی اسی نسبت سے محبت کا اظہار ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ عطا کرنے والا رب عظیم ہو اور وہ اپنے محبوب کی امت کیلئے ساتھ کچھ تحائف نہ دے۔ پھر مہمان جن احباب کو پیچھے چھوڑ کر آیا ہے ان کے پاس خالی ہاتھ کیسے جائے؟ کیسے جا کر یقین دلائے کہ میں کہاں گیا تھا؟ وہاں میرا کیسا اعزاز و اکرام ہوا؟ وہ تحائف ہی گواہی دیں گے کہ جہاں وہ ٹھہرا تھا وہ اتنا مہربان ہے کہ ساتھ اس قدر قیمتی تحفے بھیجے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کی امت کیلئے ان() کے ساتھ کتنے عظیم تحائف ارسال کیے، امت نے ان تحفوں کی کیا قدردانی کی؟ امت کے ہر فرد کیلئے یہ سوال ہے۔ تحائف کی فہرست پہ نگاہ ڈالتے ہیں: ¤ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور کسی وجہ سے نہ کر سکے تب بھی اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا(بخاری)۔ ¤ جب گناہ کا ارادہ کرے اور گناہ کو نہ کرے تو گناہ نہ لکھا جائے گا اگر کیا تو ایک ہی لکھا جائے گا، اگر ارادہ پختہ کیا پھر عمل نہ کیا تو گناہ کے ارادے چھوڑنے پہ ثواب ہو گا(بخاری)۔ ¤ سورۂ بقرہ کی آخری آیات تحفہ میں دی گئیں ( مسلم)۔ ¤ یہ وعدہ کیا گیا کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اْس کے گناہ معاف ہو جائیں گے( مسلم) ¤ امت کو 50 نمازوں کا تحفہ دیا گیا جو امت کی آسانی کی خاطر 5کر دی گئیں لیکن ثواب 50 نمازوں کا ہی ہو گا( بخاری و مسلم)۔ ہم نے نماز والے تحفہ کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے؟ ہم اگر کسی کو تحفہ دیں اور اپنی آنکھوں سے اْس کی ناقدری دیکھیں تو جذبات و احساسات کا کیا عالم ہو گا؟ اور آپس کے قلبی تعلقات میں کیا کچھ کمی آ جائیگی؟ اس کی ایک واضح مثال سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔
انھوں نے ایک آدمی کو تحفے میں گھوڑا دیا، کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد گھوڑے کو دیکھا تو بہت کمزور ہو چکا تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بہت تکلیف ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی سے اجازت طلب کی کہ اس آدمی سے گھوڑا خرید لے، مگر نبی نے منع کر دیا(بخاری)۔ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہم اگر کسی کی طرف سے تحفہ وصول کریں اور معلوم ہو کہ اس سے زیادہ تعداد میں مل رہا تھا مگر اب اس کو کم کر کے دیاگیا ہے تو حسرت کا کیا عالم ہو گا؟ اور اگر ہماری نالائقی کا حوالہ زیر بحث آیا ہو اور نالائقی کی وجہ سے زیادہ بڑا یا تعداد میں زیادہ تحفے سے محروم ہو گئے ہوں تو ندامت کا کیا حال ہو گا؟ کیا واقعی ایسا ہی نہیں ہے؟ لیکن نماز جیسا عظیم تحفہ جو ملا کم، پھر بھی اس کے ثمرات زیادہ کے برابر ہیں ۔کم ملنے کی ندامت کہاں ہے، ہمارے دل میں تو زیادہ ثواب ملنے کی شکر گزاری بھی نہیں ۔نمازوں سے لاپروائی کا کوئی غم ہی نہیں ۔ نماز دراصل معراج ہے جس میں دعوت ہے ملاقات کی، باہم گفتگو کی، ترقی کے زینوں پہ چڑھنے کی، آسمانوں کی سیر کی، مخلوق کی خالق کے سامنے عجز و نیاز کی، عبد کی معبود سے اظہار بندگی کی، ساری دنیا سے ناطہ توڑ کر اک نئے عجائبات عالم کی سیر کی، رب کو دیکھ لینے کی لذت کی ۔ حدیث جبریل میں ہے: ’’تو اپنے رب کی عبادت ایسے کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘(بخاری)۔ نماز میں جب مومن قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو جنت، دوزخ کا مشاہدہ کرتا ہے۔
کبھی قوموں کے عروج و زوال کا حال دیکھتا ہے۔ کبھی ماضی میں جھانکتا ہے کبھی مستقبل کو دیکھتا ہے۔ کبھی رب کے حضور نادم ہے اور تسلی و تشفی حاصل کرتا ہے۔ کبھی مایوس ہے تو حوصلے کی رِدا مل جاتی ہے جس کو اوڑھ کر وہ زندگی کے سرد و گرم سے خود کو محفوظ پاتا ہے مگر نماز نہ ہمارے دل کا سکون ہے نہ آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اپنی زندگی میں نماز کے بارے میں کیے گئے مطالعہ اور اپنی نمازوں کی کیفیت کا اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ادراک اور شعور کبھی پاس نہیں پھٹکے، نماز ضائع کرنے والی شہوات میں اْلجھ جاتے ہیں اور نماز تو بے حیائی اور ہر برائی سے دور رکھنے والی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم نمازی بھی ہیں اور بے حیائی اور برائی کا سیلاب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیلاب میں زیادہ طاقت ہے یا ہماری نمازوں میں معراج والی کیفیت نہیں ہے؟ یقینا ہم نماز پڑھ لیتے ہیں ’’ادا‘‘ نہیں کرتے ،’’قائم‘‘ نہیں کرتے ۔ نماز تو استعارہ ہے ایک اسلامی نظام زندگی کے قیام کا نماز دین کا ستون ہے۔ ’’دین‘‘ نظام ِزندگی ہے۔
نظامِ زندگی میں کہاں کیا غلط ہے؟ کون بالکل درست حالت میں نہیں ہے؟ یہ غور کرنا ہر فرد کا اپنا کام ہے۔ افراد سے مل کر معاشرہ بنتا ہے۔ عمارت کی ہر اینٹ درست ہو گی تو عمارت درست ہو گی۔ ہم آج سے فکر کریں، عہد کریں کہ رب کائنات کی طرف سے ملنے والے اس عظیم تحفے کی قدر کریں گے۔ معراج کے اس تحفہ سے یہی ادراک حاصل کریں گے کہ پیارے نبی محمد کو معراج کے سفر پر بلایا گیا، خاطر مدارت کی گئی اور اس کا ایک نمونہ بطور تحفہ نماز کی صورت میں امت مسلمہ کو بھی عطا کیا گیا۔ اسی نماز کے بارے میں، اسی تحفہ کی یاد دہانی کے بارے میں کتب سیرت میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضور آخری وقت میں ’’نماز‘‘ ، ’’نماز‘‘ کی تلقین کرتے رہے(سنن ابو داؤد) ۔ ہمارا کوئی عزیز دنیا سے رخصتی کے وقت جو بول ادا کر رہا ہو ورثاء کیلئے وہ پورا کرنا واجب بلکہ وصیت جان کر فرضِ عین سمجھا جاتا ہے، تو کیا ہمارے محسن جن سے محبت کا دعویٰ کرنے میں ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹتے، اُن() کی اس آخری وصیت اور لفظوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں؟ ہر مومن و مومنہ سے حشر میں سب سے پہلے سوال اسی تحفہ کی قدر دانی کے بارے میں کیا جائے گا (سنن ابو داؤد)، وہ وقت ہو گا جب اپنے افکار و اعمال پہ نظر ثانی کی مہلت نہ ملے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے شعور، ادراک، فہم و عقل کو ایمانی نور عطا فرما دے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل کر دے جو نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تاکہ دنیا و آخرت میں ترقی کی معراج حاصل ہو۔آمین!