الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے 25 اراکین اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے بعد سب سے اہم سوال حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ پر کھڑا ہو گیا ہے کہ اب اس کرسی کی کیا حیثیت ہے؟
معروف قانون دان حامد خان سمجھتے ہیں کہ حمزہ شہباز تب تک وزیراعلیٰ کے طور پر کام جاری رکھیں گے جب تک اس عہدے پر وہ خود یا کوئی اور دوبارہ منتخب ہو کر نہیں آ جاتا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کے فیصلے سے پنجاب اسمبلی کے اندر کی صورت حال پر فرق نہیں پڑا۔ جب سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی ان کے ووٹ کی حیثیت ختم کر چکی ہے تو ان کے ڈی سیٹ ہونے سے آئینی اور قانونی صورت حال ویسے ہی رہے گی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تھی۔‘
مزید پڑھیں
-
جب دل کرے گا الیکشن کروائیں گے: مریم اورنگزیبNode ID: 669986
-
ریفرنس منظور، پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان پنجاب اسمبلی ڈی سیٹNode ID: 670116
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ حمزہ شہباز اب وزیر اعلیٰ نہیں رہے اس لیے وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں، تاہم مسلم لیگ ن نے اس مطالبے کو رد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حمزہ شہباز ہی وزیراعلیٰ ہیں اور وہ ہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔
حامد خان سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور اب الیکشن کمیشن کی جانب سے 25 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد آگے آئینی طور پر صورت حال کیسے چلے گی؟
ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تو آپ یوں سمجھ لیں کہ وزیراعلیٰ کے الیکشن کا عمل ہی ختم ہو گیا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اب آگے بڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ فوری طور پر پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا دوبارہ انعقاد کیا جائے یہ ایک واحد راستہ ہے۔‘
تاہم بعض ماہرین کی رائے یہ ہے کہ حمزہ شہباز تب تک وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہیں گے جب تک صوبے کا گورنر انہیں اعتماد کا ووت لینے کا نہیں کہتا۔
سابق سیکریٹری لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن رانا اسد اللہ کہتے ہیں کہ آئین میں طریقہ کار واضع ہے۔ ’اگر کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اسمبلی میں اکثریت کھو دے تو اس کے بعد صدر یا گورنر اس کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے گا اور اگر وہ اپنی اکثریت نہیں دکھا سکے گا تو عہدہ ختم ہو جائے گا۔‘
ان کے مطابق ’الیکشن کمیشن کے فیصلے کےبعد یہ بات تو واضع ہے کہ اب حمزہ شہباز کی ایوان میں اکثریت نہیں رہی اس لیے اب انہیں اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا۔‘
خیال رہے کہ اعتماد کا ووٹ یا پھر وزارت اعلیٰ کے لیے انتخاب دونوں صورتوں میں صوبے کا فنکشنل گورنر ہونا ضروری ہے۔ اس وقت پنجاب میں گورنر کا عہدہ خالی ہے۔
