Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے شیریں مزاری کی رہائی کا حکم دے دیا

وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی رہائی کا حکم دے دیا ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کو سنیچر کے روز اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔
وزیراعلٰی آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’حمزہ شہباز نے ایک بیان میں کہا کہ وہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے عمل سے اتفاق نہیں کرتے۔‘
’راولپنڈی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ شیریں مزاری کو اینٹی کرپشن کی تحویل سے چھڑائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی خاتون کی گرفتاری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی، مسلم لیگ ن بحیثیت جماعت خواتین کے احترام پر یقین رکھتی ہے۔‘
پی ٹی آئی نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف حبس بے جا کی پیٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جس کے بعد عدالت نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو رات ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایمان مزاری کی جانب سے بطور پٹشنر درخواست دائر کی گئی تھی۔
اس سے قبل شیریں مزاری کی گرفتاری پر ایک ٹویٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہماری سینیئر رہنما شیریں مزاری کو فاشسٹ حکومت نے ان کے گھر کے باہر سے پرتشدد طریقے سے اغوا کیا۔ شیریں مضبوط اور بے خوف ہیں۔ اگر امپورٹڈ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ انہیں فاشزم سے دبا سکتی ہے تو ان کا اندازہ غلط ہے۔‘
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے ایک ٹویٹ میں آج شام پورے پاکستان میں احتجاج کی کال دی تھی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے پی ٹی آئی قیادت کی مزید گرفتاریوں سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ خاتون اہلکاروں کی عدم موجودگی میں مرد اہلکاروں نے شیریں مزاری کو گرفتار کیا جو خلاف قانون ہے۔‘
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ’ہمیں ان کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں، یہ انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے، یہ حکومت کی جانب سے اعلان جنگ ہے تو ہماری جانب سے بھی اعلان جنگ ہے۔‘
فواد چوہدری نے کہا کہ ’اس حکومت کے غنڈوں نے ایک خاتون کو جس طرح گھر کے اندر سے اٹھایا، ان پر تشدد کیا گیا، ان کے کپڑے پھاڑے گئے اور جس بہیمانہ طریقے سے انہیں گاڑی میں بٹھایا گیا اسے گرفتار نہیں اغوا کہیں گے۔‘
پی ٹی آئی حکومت کے دور میں درج مقدمہ میں گرفتاری کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق شیریں مزاری کی پیدائش 1966 کی ہے جب کہ مقدمہ اس وقت کا ہے جب وہ چند برس کی بچی تھیں، یہ مضحکہ خیز ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب پولیس ریکارڈ کے مطابق شیریں مزاری کی گرفتاری کی وجہ بننے والا حالیہ مقدمہ اا اپریل 2022 کو درج کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر راجن پور کی جانب سے چھ اپریل 2022 کو بھی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ڈیرہ غازی خان ریجن کے ڈائریکٹر کو خط لکھا تھا۔ اس خط میں 1971.72 کی اصل جمع بندی کے غائب ہونے کی تحقیق کا ذکر کیا گیا تھا۔
شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’مرد پولیس افسران نے میری والدہ کو مارا اور پکڑ کر لے گئے۔ مجھے صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن ونگ لاہور نے ان کو حراست میں لیا ہے۔‘
تاہم اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ’شیریں مزاری کو خواتین پولیس اہلکاروں نے قانون کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر گرفتار کیا ہے۔‘ 
’ان کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔‘
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ’غنڈوں کی طرح ایک عورت کو آج اٹھایا گیا نہ اس کے خاندان کو کچھ بتایا گیا تو اگر اس قسم کی حرکتیں کرنی ہیں تو میں اس حکومت کو وارننگ دیتی ہوں کہ میں اس کے پیچھے آؤں گی۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میری والدہ کو اس حکومت کی جانب سے جبراً لاپتا کیا گیا ہے مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں۔ میری والدہ کو گرفتار نہیں اغوا کیا گیا ہے۔‘

شیئر: