پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے لیکن اس کے اثرات ابھی بھی پورے ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
خاص طور پر پنجاب کے تمام بڑے شہروں اور دریائی گزرگاہوں پر ابھی بھی کنٹینرز موجود ہیں۔
تحریک انصاف اپنے لانگ مارچ کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے تو حکومت اس کو ایک ناکام کوشش سے تعبیر کر رہی ہے۔ ان دعوؤں کے درمیان ایک بات تو اظہر من الشمس ہے کہ تحریک انصاف پنجاب خاص طور پر صوبائی دارالحکومت لاہور سے لوگوں کو اس لانگ مارچ میں شرکت کے لیے نہیں نکال سکی۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کی وجہ حکومت کی ’فسطائیت‘ ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ لوگوں نے تحریک انصاف کی ’غصیلی‘ سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو ساڑھے نو بجے کا وقت دے رکھا تھا کہ وہ اپنے اپنے شہروں کے خارجی راستوں پر جمع ہوں۔ لاہور میں یہ کال بابو صابو انٹرچینج اور راوی کنارے نیازی چوک میں اکھٹے ہونے کے لیے دی گئی۔
حکومت نے رات گئے تحریک انصاف کے لیڈران اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ بدھ کے روز صبح دس بجے جب لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹینرز سے بند کر دیا گیا تھا تو تحریک انصاف کے کارکنان کی بھی چند ٹولیاں نمودار ہوئیں۔ انہیں بھاٹی چوک اور نیازی چوک میں پولیس نے روک لیا۔ آنسو گیس کی شیلنگ سے یہ ٹولیاں تتر بتر ہو گئیں۔
رہنماوں میں محمود الرشید، یاسمین راشد، شفقت محمود اور اعجاز چوہدری کو پولیس نے ایک مرتبہ حراست میں لے کر چھوڑ دیا، تاہم ان کے ساتھ آئے کارکنوں کو بھی منتشر کر دیا۔ صرف حماد اظہر درجن بھر کارکنوں کے ہمراہ راوی کا پل گزرنے میں کامیاب ہوئے۔
یوں شام تک تحریک انصاف شام تک لاہور سے نہ نکل پائی۔ کچھ یہی حال گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد ،ساہیوال، سرگودھا اور جہلم کا رہا۔
وسطی پنجاب سے تحریک انصاف کے صرف وہی کارکن لانگ مارچ میں شریک ہو سکے جو ایک دو روز پہلے نکل گئے تھے۔
بالاخر شفقت محمود نے لاہور میں کارکنوں کو شام کو لبرٹی چوک میں اکھٹا ہونے کی کال دی جہاں پولیس نے انہیں ایک مرتبہ پھر آنسو گیس کے استعمال سے منتشر کر دیا۔
کیا پولیس نے غیر معمولی اقدامات کیے؟
تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان حکومت پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہیں ریاستی طاقت کے زور پر لانگ مارچ میں شرکت سے روکا گیا۔
اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اس سوال کا جواب سابق آئی پنجاب خواجہ خالد فاروق دیتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ تحریک انصاف کے خلاف کوئی غیر معمولی طاقت استعمال ہوئی ہے۔ پولیس کے پاس وہی سٹینڈر آپریٹنگ سسٹم ہے جو اس طرح کے مارچ کو روکنے کے لیے وہ بروئے کار لاتے ہیں۔ لسٹیں بنتی ہیں، چیدہ چیدہ رہنماوں اور کارکنوں کو سرکل کر کے مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا جا تا ہے، لیکن اگر ساتھ عوام کا ہجوم زیادہ ہو تو پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا کچھ کو پولیس نے خود چھوڑ دیا اور کچھ کو عدالتوں نے چھڑوا دیا۔
سابق آئی جی خواجہ خالد فاروق ماضی کے کچھ لانگ مارچز کا حوالہ دے کرکہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے پرویز مشرف دور میں جو پہلا لانگ مارچ ججوں کی بحالی کے لیے ہوا تھا۔ دوپہر ایک بجے تک پولیس نے لاہور میں کسی چڑی کو بھی پر نہیں مارنے دیا۔‘
’لیکن اس کے بعد عوام نکلی تو سب کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ ابھی کی مثال تحریک لبیک والوں کی ہے۔ ان کے کارکنوں بھی بہت سخت جان ہیں پولیس نے پوری طاقت سے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ نکلنے میں کامیاب رہے۔ تو میرا خیال ہے پولیس کے روکنے کے علاوہ دیگر محرکات بھی ہو سکتے ہیں۔‘
تو کیا تحریک انصاف پنجاب میں اپنے آپ کو صحیح طریقے سے منظم نہیں کر پائی؟ اس پر بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ تحریک انصاف کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن سے پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں دہائیوں سے گزر رہی ہیں۔
’دوسری یہ بات بھی واضع ہوئی ہے کہ تحریک انصاف صرف اسی جگہ ہے جہاں عمران خان کھڑے ہیں۔ ابھی بھی ان کی سیاست فین فالونگ طرز کی ہے۔ اگر وہ خود لاہور سے نکلنے کا فیصلہ کرتے تو صورتحال ضرور اس سے مختلف ہوتی۔ اور اتنی آسانی نے انتظامیہ انہیں نہ روک پاتی۔‘
تاہم تحریک انصاف کی قیادت ابھی بھی لاہور اور پنجاب سے کارکنوں کے نہ نکلنے کی وجہ پولیس کو قرار دے رہی ہے۔
پارٹی کی پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ بے دریغ ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا۔
’ہمارے پانچ کارکن ملک بھر میں شہید کیے گئے۔ اور زہریلی آنسو گیس پھینکی گئی۔ لیڈر شب کو رات کے اندھیرے میں پکڑا گیا۔ فسطائی ہتھکنڈوں سے روکے جانے کے باوجود لاکھوں لوگ اسلام آباد پہنچے اور یہ بتا دیا کہ کوئی بھی طاقت تحریک انصاف کو نہیں روک سکتی۔‘