کوئٹہ کے سرکاری سکولوں میں مینا بازار پر پابندی کیوں لگائی گئی؟
کوئٹہ کے سرکاری سکولوں میں مینا بازار پر پابندی کیوں لگائی گئی؟
بدھ 1 جون 2022 7:05
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی سکول میں مینا بازار منعقد کرنے کی شکایت ملی تو کارروائی کی جائے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
کوئٹہ میں سرکاری سکولوں کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین نے شکایت کی ہے کہ انہیں سکول کے اساتذہ کی جانب سے سموسے، پاپڑ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
طالبات کی شکایت کے بعد محکمہ تعلیم نے نوٹس لے لیا اور سرکاری سکولوں میں مینا بازار اور ٹک شاپ کے انعقاد پر پابندی لگا دی ہے۔
حکام کے مطابق کوئٹہ کے ایک سرکاری گرلز ہائی سکول کی طالبات کی جانب سے محکمہ تعلیم کے افسران کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ٹیچرز کلاس کے وقت پڑھائی چھوڑ کر سموسے بنا کر پھر طالبات کو خریدنے پر مجبور کرتی ہیں جبکہ پارٹی کے نام پر بھی ان سے زبردستی رقوم لی جاتی ہیں اور نہ دینے پر دھمکایا جاتا ہے۔
اس خط کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کوئٹہ شبیر احمد لانگو نے سرکاری سکولوں میں مینا بازار و ٹک شاپ منعقد کرنے پر پابندی لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں ضلع کے تمام سرکاری سکولوں کی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ’لڑکیوں کے سکولوں میں اکثر مینا بازار و ٹک شاپ منعقد کیے جاتے ہیں جس کی تیاریوں کے لیے غریب و نادار بچوں سے پیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں جو سراسر غیر قانونی عمل ہے۔‘
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی سکول میں مینا بازار اور ٹک شاپ منعقد کرنے کی شکایت ملی تو سکول کے انچارج کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔
شبیر احمد لانگو نے اردونیوز کو بتایا کہ ’کئی دیگر سرکاری سکولوں کے طلبہ اور ان کے والدین نے بھی ایسی ہی شکایات کی ہیں اور کہا ہے کہ وہ غربت کے باعث اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھاتے ہیں لیکن وہاں ان سے کبھی پارٹی، کبھی مینا بازار، کبھی گملوں تو کبھی سٹوڈنٹس کارڈ کی مد میں رقوم مانگی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ شکایات لڑکیوں کے سکولوں سے زیادہ مل رہی تھیں جس پر محکمہ تعلیم نے نوٹس لے لیا اور طلبہ سے غیر ضروری مد میں رقوم کی وصولی اور ان پر زبردستی کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے پر پابندی لگا دی۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے مطابق مینا بازار و ٹک شاپ کے انعقاد کا محکمہ تعلیم کے رولز میں کہیں بھی ذکر نہیں۔ سرکاری سکولوں میں چند روپے کمانے کی خاطر اس طرح کا غیر قانونی عمل دہرایا جا رہا ہے اور چوڑیاں، کاسمیٹکس سمیت پرائیوٹ کمپنیوں کی اشیا لا کر غریب طلبا کو دگنی قیمت پر فروخت کی جاتی ہے جس کی رقم کا کچھ حصہ سکول انچارج کی جیب کی نذر ہوجاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طر ح کی سرگرمیوں سے نہ صرف درس وتدریس کے عمل کا ضیاع بلکہ ان غریب و نادار بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔