’ڈیزل کی نئی قیمت 204 روپے 15 پیسے ہوگئی ہے۔ ڈیزل پر آج بھی 54 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔‘
مشیر خزانہ نے کہا کہ ’31 مئی کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اس لیے ہمیں بھی قیمتیں بڑھانا پڑیں۔‘
انہوں نے تسلیم کیا کہ ’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق ’اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے تو روپیہ مزید گرتا اور زیادہ مہنگائی ہوتی۔‘
مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ’حکومت چلانے کا ماہانہ خرچ 40 ارب روپے ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر 120 ارب روپے کی سبسڈی کہاں سے دیں؟
’اگر قیمتیں نہ بڑھاتے تو حکومت کو 120 ارب روپے کا نقصان ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ مشکل سے گزرے گا پھر آسانی ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر روس 30 فیصد سستی گندم اور تیل دے گا تو ضرور خریدیں گے، روس سے گندم خریدنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔‘
مفتاح اسماعیل کے مطابق ’گذشتہ حکومت کے کیے گئے معاہدوں کے تحت قیمتوں میں اضافہ کیا۔ عمران خان اور شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے معاہدے کیے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کی حکومت نے پونے چار سال کے دوران قرضوں میں 20 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا۔‘
ایک سوال پر مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’چین سے چند دنوں میں پیسے وصول ہوجائیں گے جس کے بعد پاکستانی روپیہ مستحکم ہوگا۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 27 مئی کو پہلی بار پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 30، 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھا۔