سپیشل کورٹ سینٹرل کے جج اعجاز اعوان نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ ‘کیا آپ کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی گرفتاری مطلوب ہے؟‘
اس پر ایف آئی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ ’شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں کی گرفتاری مطلوب ہے کیونکہ ابھی ملزمان کا مزید کردار ثابت ہونا ہے لہٰذا ان کی ضمانت خارج کی جائے۔‘
سماعت کے موقعے پر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز بھی سپیشل کورٹ سینٹرل میں موجود تھے۔
ایف آئی اے کی جانب سے ضمنی چالان عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔ ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے ضمنی چالان جمع کرایا۔
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز عبوری ضمانت کی توثیق پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ سال تک تحقیقات کی گئیں لیکن ایف آئی اے کویی شواہد رکارڈ پر نہ لا سکی۔
’گذشتہ دور حکومت میں بدترین سیاسی انجینیئرنگ کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ بھی اسے سیاسی انجینیئرنگ قرار دے چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دور میں اپوزیشن لیڈرز کو دبانے کے لیے حکومتی مشینری کو استعمال کیا گیا۔‘
امجد پرویز نے کہا کہ حمزہ شہباز کے ذاتی اکاؤنٹس میں کوئی رقم نہیں، ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ تمام ٹرانزیکشنز قانونی اور لین دین کاروباری ہے، منی لانڈرنگ کا مقدمہ گذشتہ دور حکومت میں بدنیتی پر بنایا گیا ہے۔
’مشتاق چینی کے بارے میں کہا گیا کہ وہ شامل تفتیش ہوئے، حالانکہ مشتاق چینی کو نہ گواہ بنایا گیا نہ ہی ملزم بنایا گیا۔‘
عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت تمام ملزمان کی ضمانت میں 11 جون تک توسیع کردی۔ بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالت سے اجازت لینے کے بعد واپس روانہ ہوگئے۔
دونوں حکومتی شخصیات کی موجودگی کے دوران عدالت میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور عام سائلین کو عدالتی احاطے سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف، وزیر اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز اور دیگر اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت 15 جون تک ملتوی کردی گئی۔