Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے کا مقدمہ ہے کیا؟

ایف آئی اے نے مقدمے کا چالان دسمبر 2021 میں عدالت میں جمع کروایا۔ (فائل فوٹو)
لاہور کی سپیشل سینٹرل کورٹ میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر منی لانڈرنگ کیس میں ایک بار پھر فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔
پیر کو عدالت نے شہباز شریف کی ایک دن کے لیے حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر حاضری مکمل کروائی جبکہ شہباز شریف کے وکلا کی جانب سے ایک دن کے لیے حاضری سے معافی کی درخواست دائر کی تھی۔
وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ’پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں جس کے باعث وہ پیش نہیں ہوسکتے۔‘
وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف متحدہ اپوزیشن کے امیدوار ہیں۔ 
لاہور کی سپیشل سینٹرل کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے مسلم لیگ ن کے صدر کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ 
عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروانے جانے والے چالان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نہ صرف مرکزی ملزمان بلکہ 16 ارب روپے سے زیادہ کی منی لانڈرنگ کا اصل فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر ملزمان ٹھہرایا گیا ہے۔
16 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ بدعنوانی، غیرقانونی ذرائع اور تحائف سے حاصل شدہ رقوم پر مشتمل ہے۔
چالان کو بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ 1947 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں فوجداری جرائم کے تحت سپیشل کورٹ میں ٹرائل کے آغاز کے لیے جمع کرایا گیا تھا۔ 
خیال رہے کہ شہباز شریف نے اس مقدمے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی تھی کہ یہی مقدمہ پہلے نیب نے بھی بنایا اور تحقیقات میں ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ اب سیاسی انتقام کے طور پر ایف آئی اے کے ذریعے یہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ درخواست عدالت سے اس وقت واپس لے لی جب عدالت نے اس مقدمے میں نیب کو فریق نہ بنانے کا اعتراض اٹھایا۔ 

چالان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو مرکزی ملزمان ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

سابق وزیراعظم عمران خان کے اس وقت کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے گزشتہ برس فروری اور مارچ کے مہینوں میں نہ صرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شریف پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ اپنی ہی جماعت کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے خاندان پر بھی مقدمات درج کروائے۔ 
بعد ازاں جب جہانگیر ترین اپنی سیاسی طاقت کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے تو ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات روک دیں اور عدالت کو بتایا کہ ’بعض حقائق‘ سامنے آنے پر اب وہ تحقیقات کے لیے مطلوب نہیں ہیں۔‘
شہباز شریف اور جہانگیر ترین اور ان کے بچوں نے ان مقدمات میں گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانتیں بھی کروا رکھی تھی۔
شہبازشریف اور حمزہ کی ضمانت ابھی جاری ہے جبکہ جہانگیر ترین نے ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کو اس یقین دہانی کہ اب ان کی ’ضرورت‘ نہیں، اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی تھی۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین اور ان کے خاندان پر بھی مقدمات درج کروائے تھے۔ (فوٹو: جہانگیر ترین فیس بک)

بعد ازاں ایف آئی اے نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے کے خلاف مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کر دیا۔ ان کی ضمانت بھی منسوخ کروانے کی بارہا کوشش کی لیکن عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ نہیں کی۔
عدالت نے بنیادی نقطہ یہ اٹھایا کہ اب جبکہ مقدمے کا چالان پیش ہو چکا ہے اور صرف ٹرائل ہونا باقی ہے تو ایف آئی اے ملزمان کو گرفتار کیوں کرنا چاہتی ہے؟ ملزمان کو صرف تحقیقات کرنے کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ اس کیس میں بقول ایف آئی اے تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں۔ 
ایف آئی اے نے اس مقدمے کا چالان دسمبر 2021 میں عدالت میں جمع کروایا۔

شیئر: