جاسوس اپنے فن میں یکتا ہوا کرتا ہےاور سنگین حالات میں بھی اپنے نظرئیے کی سر بلندی کے لئے خطرات میں کود جاتاہے
* * * محمد مبشر انوار* * *
ہوس اقتدار و ملک گیری کی خاطر زمانہ قدیم سے ہی طاقتور ریاستیں بالعموم کمزور ریاستوں کو ہڑپ کرتی رہیں ہیں اور اس مقصد کے لئے عقلمند حکمران اور ان کے مشیران قبل از جارحیت مجوزہ ریاست کی اندرونی حالت کو جانچنے کے لئے جاسوسوں کی فراہم کردہ اطلاعات کے عین مطابق اپنا لائحہ عمل ترتیب دے کر ہی حملہ آور ہوتے رہے اور اپنے مقاصد کی بارآوری کرتے رہے۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جنگل کے اس قانون میں بھی ،جاسوسی کا کام انتہائی جان جوکھوں اور جان پر کھیلنے کے مترادف رہا ہے اور جاسوس اپنے فن میں یکتا اور ماہر ہوا کرتے جو انتہائی سنگین حالات میں بھی اپنے نظرئیے کی سر بلندی کے لئے ان خطرات میں کود جاتے،اپنے حکمران کے لئے مخالفین کے اندرونی راز نہ صرف حاصل کرتے بلکہ ان کی محفوظ ترسیل کو یقینی بناتے تا کہ منصوبہ جارحیت میں کہیں بھی کوئی سقم باقی نہ رہے اور ان کی افواج اپنے حملے میں کامیاب ٹھہریں۔علاوہ ازیںاپنے فن میں ہر طرح سے یکتا ہونے کے باوجود ،ہر لمحہ پکڑے جانے کا خوف دامن گیر رہتا ،جس کا نتیجہ ماسوائے عمر بھر کے لئے کال کوٹھری (اگر نہتے پکڑے گئے یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے گرفتار ہوئے )وگرنہ مقابلے کی صورت فوری قتل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیںکہ اکیلا سورما کتنے دشمن ٹھکانے لگا سکتا ہے؟؟زمانہ جاہلیت میں بھی جاسوسی کی اہمیت مسلمہ رہی ہے لیکن کم ہی ایسا دیکھنے میں آیا کہ ایک جاسوس کسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہو کہ جاسوسی کلیتاً ایک مختلف شعبہ رہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف دفاعی صلاحیتیوں سے متعلق معلومات تک رسائی کے ساتھ ساتھ دشمن ریاست کی کمزوریوں کا ادراک حاصل کرنا یا زیادہ سے زیادہ کسی ایک مضبوط فرد واحد جو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ،کو قتل کرنا ہی رہا ہے۔
یہ جدید دوراور ہلاکت خیز مواد کی دستیابی کے بعد ممکن ہوا ہے کہ ایک جاسوس نہ صرف جاسوسی بھی کرے بلکہ نہتے عوام کو عوامی جگہوں ،ہسپتالوں ،بس اڈوں،ریلوے سٹیشنوں،سکولوں ،کالجوں یا یونیورسٹیز میں مربوط منصوبہ بندی اور بہیمانہ بے دردی سے قتل و غارت کرتے ہوئے دشمن ریاست کے اعصاب کو مفلوج کرے،خوف وہراس پھیلائے اور جنگ سے قبل ہی جنگ جیتنے کی کوشش کرے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ دشمن ریاست کے خلاف کارروائیوں نے بھی جدت اختیار کر لی ہے اور کرہ ارض کی حیثیت بچھی شطرنج کی سی ہے کہ جہاں اس کی چالیں چلنے والے بڑے اطمینان سے اپنے مقاصد کے مطابق مختلف ریاستوں کو بطور وزیر،فیل اور گھوڑے کے طور پر چلتے ہیں اورکمزور ریاستوں کو مزید کمزور یا ان کی ’’اوقات‘‘ میں رکھتے ہیں۔ ہمارا نصیب ہے کہ ہم اس دور میں زندہ ہیں جب مسلمان اور مسلم ریاستیں نشیب و پستی میں گری پڑی ہیں اور شطرنج کی چالوں پر اختیار غیر مسلموں کا ہے،جو اس کھیل میں کسی بھی قسم کی اخلاقیات سے مبرا ہو کر ہر صورت مسلمانوں کی نسل کشی و ایمان کشی پر مامور ہیں اور اس مقصد کی خاطر وہ اندرونی و بیرونی ہر دو محاذ پر مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ بیرونی طور پر مسلسل ایسے امتیازی قوانین اوراندرونی طور پر نا اہل ،کرپٹ اور بکاؤ حکمران ان کی آشیر باد سے حکومتیں سنبھالے ہوئے ہیں،ان کے اشارہ ابرو پر اپنی ہی قوم کے خلاف فیصلے کرتے نظر آتے ہیں،نظریاتی و جغرافیائی حدوں سے بے خبر فقط اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے زمین بوس ہوئے جاتے ہیںتا کہ دوام اقتدار حاصل رہے اور وہ اپنے دور حکومت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کر سکیں۔ ایسے حکمرانوں سے کوئی کیا توقع رکھ سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہوس زر کے یہ پجاری بلا امتیاز ہر اس در پر ماتھا ٹیکنے کے لئے تیار ہیں جہاں سے ان کی تجوریوں میں مال و زر جمع ہو سکے،ان کے اقتدار کو دوام مل سکے،اس پس منظر میں یہ کیسے اور کیونکر ممکن نہیں کہ آپ کے نظریاتی مخالف اپنے جاسوس آپ کے ملک میں بھیجیں،آپ کے ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں،آپ کی نظریاتی سرحدوں میں نقب لگائیں،آپ کے عقائد کو مسخ کریں،آپ کے ایمان کی بولیاں لگائیں،آپ کی ملکی معیشت کو نقصان پہنچائیںاور حکمران طبقہ آنکھیں بند کئے ،کانوں میں روئی ٹھونسے اور زبانوں کو ڈالروں کے تالے لگا کر بیٹھا رہے ۔ جب ذاتی مفادات ،عقائد و ملکی مفادات پر ترجیح رکھیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ملک میں کتنے محب الوطن ،کیسی اور کتنی بے دردی سے انجام کو پہنچے؟کس کس نے کیا کیا اور کہاں کہاں دشمن کو روکا ،اس کے کاری وار کو سینے پر جھیلا،صرف اور صرف اپنے جذبہ ایمانی اور مادر وطن کی حفاظت کے لئے جبکہ اقتدار کے بھوکے اس مادر وطن کے سینے میں چھرا گھونپنے والوں کا ذکر کرنے سے بھی قاصر،صد حیف ایسے حکمرانوں اور ان کے مفادات پر۔
کلبھوشن یادو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ،اقبالی بیان تک سامنے آ گیا ،اس کے افسروں کی لسٹ بھی موجود ،اس کی شناخت بھی یقینی مگر غیروں کے آگے جھکے حکمران گنگ،زبانوں پر وزنی تالے،بولیں بھی تو کیاکہ ان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے۔ ہندوستانی حکومت،میڈیا اور ادارے پوری ڈھٹائی کے ساتھ بھر پور کوششوںمیں ہیں کہ وہ کسی طریقے سے اپنے ’’بندر‘‘کو چھڑوا لیںیا کم ازکم اس کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کروا لیں اور کسی وقت اپنے دیگر جاسوسوں کی مانند اس کو بھی آزاد کروا لیں گے۔ جبکہ دوسری طرف حقائق انتہائی تلخ نظر آتے ہیں جب ہندوستان میںکسی عام پاکستانی شہری کو تشدد کے زور پر جاسوس ثابت کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں ،الزامات کے انکار پرانہیں قونصلر تک رسائی کا حق بھی نہیں دیا جاتابلکہ جعلی فوجی عدالتیں بٹھا کر یکطرفہ فیصلے نہ صرف سنائے جاتے ہیں بلکہ ان پر فوی عملدرآمد بھی کروا دیا جاتا ہے۔ اجمل قصاب کا قصہ تو زیادہ پرانا نہیں ،جسے لالچ کے زور پر بہکایا گیا،اس کے ملوث ہونے کا اقبالی بیان دلوایا گیا اور وقت نزاع(جس کے متعلق قانونی طور پرعمومی مسلمہ رائے ہے کہ انسان سچ بولتا ہے)اس کا ویڈیو انکار کسی کھاتے میں نہیں لایا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
ایک پاکستانی سپاہی جو غلطی سے ہندوستان کے ہاتھ لگا،اپنا پورا زور لگا کر اس سے پاکستان کے خلاف ایک نعرہ تک نہیں لگوا سکا،اس مرد قلندر نے اپنی زبان کٹوا لی (یا کاٹ لی)مگر مادر وطن کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا دوسری طرف یہ حاضر سروس ’’بندر‘‘ ہے جس نے بڑے اطمینان کے ساتھ اپنا جرم قبول کیا،اپنے رابطوں کی تفصیلات بتائی۔ ان تمام شواہد اور اقبالی بیان کے بعد اسے پھانسی نہ ملے تو کیااس کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے جائیں بالخصوص جب اس کے اقبالی بیان میں بے گناہ نہتے شہریوں کا قتل عام بھی شامل ہو؟اس کھیل کے مروجہ اصولوں کے مطابق ایسے جاسوس نما دہشت گرد کو ایک بار نہیں بلکہ سو بار پھانسی کی سزا دینی چاہئے کہ اس وقت جب اقوام عالم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف کمر کس کے کھڑی ہے تو اس دہشت گردکے لئے نرم گوشہ کیوں؟