وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستان ساجد خان طوری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت نے عوام بالخصوص اوورسیز پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کرنے، ان کے مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کرنے اور ترجیحی بنیادوں پر انہیں خدمات فراہم کرنے کے لیے ضلعی سطح پر سہولت مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک فوکل پرسن مقرر کیا جائے گا جو صرف اور صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شکایات سننے اور انھیں حل کرنے کا پابند ہوگا۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق ’اوورسیز کے مسائل حل کرنے اور سرکاری اداروں کے ساتھ معاملات دیکھنے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں پر مشتمل پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کے ٹی او آرز جلد تیار کر لیے جائیں گے۔‘
ان مراکز میں اوورسیز پاکستانیوں کو پولیس کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی فراہمی، پولیس تصدیق نامہ، گمشدگی رپورٹ، کرایہ دار رجسٹریشن، غیر ملکیوں کی رجسٹریشن، رضا کار رجسٹریشن، گاڑیوں کی تصدیق اور ایف آر کی کاپی کی فراہمی کی سہولیات فراہم جائیں گی۔
اس کے علاوہ اوورسیز داخلہ اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی خصوصی سافٹ وئیر کے ذریعے اپنے مسائل کی نشاندہی کروا سکتے ہیں۔ اگر پولیس شکایت ہوگی تو متعلقہ تھانے کو ریفر کرتے ہوئے تھانے کو مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔ اگر کسی وزارت یا ادارے سے متعلق کوئی مسئلہ ہوگا تو اس متعلقہ ادارے سے مسئلہ حل کرنے کا کہا جائے گا۔
سمندر پار پاکستانیوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کی سہولت کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں کیونکہ انھیں سرکاری اداروں میں اپنے مسائل کے حل میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص ان کی غیر موجودگی میں زمین یا مکان پر قبضے کی صورت میں پولیس کی جانب سے عدم تعاون کی شکایت رہتی ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ دستاویزات کا حصول ہے اور اس کی بنیادی وجہ ماضی کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہیں۔
انھی مسائل کی روشنی میں سابق حکومت نے ابتدائی طور پر اسلام آباد میں سہولت مرکز میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے خصوصی کاؤنٹرز قائم کیے تھے اور موجودہ حکومت نے اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ وزارت اوورسیز پاکستانیز نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ جس ضلع سے 10 ہزار افراد بیرون ملک ہوں گے وہاں پر پروٹیکٹوریٹ آفس بھی بنایا جائے گا تاکہ دور دراز سے شہریوں کو بڑے شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے۔