ن لیگ کیا اقتدار میں اپنے ہی ہاتھوں زیر ہوجائے گی؟، ماریہ میمن کا کالم
ن لیگ کیا اقتدار میں اپنے ہی ہاتھوں زیر ہوجائے گی؟، ماریہ میمن کا کالم
منگل 21 جون 2022 16:27
ن لیگ کے لیڈر شاید اندرون خانہ یہ حقیقت تسلیم کریں گے کہ انہوں نے ایک سیاسی جوا کھیلا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ملک عزیز میں سیاست کا تلاطم آج کل معیشت کے تابع ہے۔ حکومت کہنے کو تو اتحادی جماعتوں پر مشتمل ہے مگر اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہی ہے۔
ہنگامہ خیز لانگ مارچ اور پرتشدد رکاوٹوں میں البتہ کمی آئی ہے۔ جلدی الیکشنز کے مطالبے میں بھی اب وہ جان نہیں رہی۔ قرائن اور خبریں، دونوں سے ان ہی اندازوں کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت پر الیکشن کے دباؤ کے حوالے سے عمران خان اب سنجیدہ خطرہ نہیں رہے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ادراک ہے کہ اگر الیکشنز کے نتیجے میں وہ واپس آبھی جائیں تو مہنگائی کے سونامی کے سامنے بند باندھنا آسان نہیں ہوگا۔ شاید وجہ یہ ہو کہ ان کو باور کرا دیا گیا ہو کہ ملک مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی خبریں ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر سے جو اکثریتی آوازیں اسمبلی میں بیٹھنے اور سیاسی عمل کے حق میں ہیں، وہ غالب آگئی ہوں۔ وجہ کوئی بھی ہو حکومت کے لیے براہ راست اور فوری سیاسی چیلنج کافی حد تک قابو میں ہے۔
اب حکومت کا امتحان گورننس کا ہے۔
گورننس میں شہباز شریف نے اپنا آپ ہمیشہ ایک برانڈ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ انتظامی چابک دستی، ماہرین کی معاونت اور فوری نتائج اس برانڈ کے اہم اجزا ہیں۔
ابھی تک مگر شہباز شریف کنفیوز بلکہ بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ ان کے معاونین کی مہارت پر بھی حکومت کے دعوے تو ہیں مگر ابھی تک ان دعوؤں کے حقیقت بننے کا سفر شروع نہیں ہوا۔
گورننس میں نواز ماڈل اور شہباز ماڈل کا فرق بھی واضح نظر آتا ہے۔ نواز شریف کا ماڈل معاونین خصوصاً اسحاق ڈار اور بیوروکریسی کو پالیسی ہدایت کے بعد کھلی چھوٹ تھی جبکہ شہباز شریف ہر معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر نگاہ رکھتے ہیں۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں نواز شریف کی معاشی پالیسیاں مہنگائی اور روپے کی قدر کے حوالے سے پھر بھی کچھ بہتر نتائج دے گئیں جبکہ اب تو بہتری کی امید دور دور تک نظر نہیں آتی۔
نواز شریف کے پاس شہباز شریف بطور وزیراعلٰی تھے مگر اب شہباز شریف کے پاس ان کے صاحب زادے اور ولی عہد ہیں جو ابھی تک اپنا کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ گورننس میں کنفیوژن اور بے بسی کی صورت حال میں ن لیگ کے رہے سہے بیانیے کا بھی اب کوئی خریدار نہیں۔
بات اگر بیانیے کی ہو تو ن لیگ کا بیانیہ بے پروائی، غیر رسمی انداز اور کمزوری سے بھرپور ہے۔
ایک طرف شہباز شریف کی مصنوعی اور اردو محاوروں سے بھرپور تقریریں ہیں جن میں وہ کبھی کپڑے بیچنے کے دعوے کرتے ہیں اور کبھی دوسروں سے اپیلیں۔
دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی حس مزاح ہے جو مہنگائی سے لاچار عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے۔ ان کی پھلجڑیوں کے ساتھ ہی پیٹرول پمپس پر قطاریں لگ جاتی ہیں۔ فلاسفر سیاست دان اور منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال ابھی تک ٹوئٹر پر مشورے مانگ رہے ہیں کہ ٹرن اراؤنڈ کیسے کیا جائے۔
فیٹف پر کریڈٹ لینے کی بچکانہ کوششیں ایک طرف ہیں تو دوسری طرف خواتین رہنماؤں پر دہشت گردی کے پرچے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر کر رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے رہنما حکومت سے باہر ہونے کے بعد فل ٹائم سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور حکومت کے پاس جواب ہے اور نہ جواب دینے والے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کہنے کو یہ اتحادی بلکہ اپنی طرف سے قومی حکومت ہے مگر اتحادیوں نے بڑے طریقے سے سب ن لیگ پر چھوڑ دیا ہے۔ خزانہ، توانائی، داخلہ، جہاں جہاں مسائل زیادہ ہیں وہاں ن لیگ توپوں کے سامنے ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزرا بڑے آرام سے وزارتوں کے اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہیں۔ پنجاب میں بھی اقتدار میں مزید تر حصہ لے رہے ہیں۔ جے یو آئی اور دیگر رہنما بھی پس منظر میں ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ن لیگ ہی کے اندر سے بھی آوازیں آئیں گی کہ اس تمام بندوبست میں انہوں نے زیادہ کھویا ہے اور دیگر پارٹیوں نے زیادہ پایا ہے۔ اس وقت اتحاد کا اصل امتحان ہوگا اور کئی سرپرائز بھی سامنے آئیں گے۔
اگلے کم سے کم ایک سال تک ن لیگ کا مقابلہ سیاسی کم اور گورننس سے متعلق زیادہ ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے ن لیگ کا مقابلہ بھی ن لیگ سے ہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا شہباز کے پاس کوئی لانگ ٹرم حکمت عملی ہے؟ اس کا جواب تو اب تک نہیں ملا۔ فی الحال تو ایسے لگتا ہے حکومت صرف آئی ایم ایف کو جواب دہ ہے۔ وہ دن بھی مگر دور نہیں جب عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
ن لیگ کے اندر سے بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ وہ اگلے الیکشنز میں کیا منہ لے کر جائیں گے؟ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی تک نواز شریف کا سیاسی اندازہ ہی صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ فوری الیکشنز ہی بہتر حل تھا مگر شہباز شریف تمام دیگر اتحادی رہنماؤں نے اصرار سے حکومت سنبھالی۔ اتنی کوشش سے اقتدار میں آنے کے بعد اگر اب ن لیگ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کرے گی کہ ان کو خوف زدہ کر کے حکومت سونپی گئی تو شاید ان کے اپنے ووٹر بھی اس بیانیے کو قبول نہ کریں۔
ن لیگ کے لیڈر شاید اندرون خانہ یہ حقیقت تسلیم کریں گے کہ انہوں نے ایک سیاسی جوا کھیلا اور عمران خان کے سرپرائز اور ان کی عدم تیاری کی وجہ سے اب وہ کارنر ہو چکے ہیں۔ یہاں سے ان کا مقابلہ صرف اپنے آپ اور خود سے لگائی گئی توقعات سے ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ پارٹی جو اپوزیشن اور مخالفین کے ہاتھوں کمزور نہ ہو سکی، کیا وہ اقتدار میں آکر اپنے ہی ہاتھوں زیر ہوجائے گی؟