Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مفاہمت اور سیم پیج، ایک نئی ن لیگ: ماریہ میمن کا کالم 

حکومت کے سب فیصلوں میں نواز شریف کی رائے حرف آخر ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ملک میں معیشت، سیاست اور حکومت تینوں جہتوں میں ایک اضطراب کی کیفیت ہے۔ پہلے حکومت کا بحران تھا کہ الیکشن ہو رہے ہیں یا نہیں۔ پھر معیشت کا بحران- تیل، بجلی اور گیس کی قیمتیں اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان، مگر اس دوران سیاست میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ بھی قابل غور ہیں۔
سب سے پہلے تو پی ٹی آئی کی احتجاجی اور ہنگامہ خیز سیاست نے سب کو حیران کیا۔ سوشل میڈیا سے اس کے کی بورڈ واریئرز میدان میں آکر آنسو گیس اور پولیس کے ڈنڈوں کا سامنا کرتے ہوئے پارٹی کی ایک نئی جہت کی بنیاد رکھ رہے تھے۔
اسی طرح کی نئی جہت ن لیگ میں بھی نظر آرہی ہے مگر ن لیگ میں تبدیلی کی سمت پی ٹی آئی سے اُلٹ ہے یعنی احتجاج اور اختلاف سے دور اور مفاہمت اور سیم پیج کے قریب۔ 
ایک عرصے تک ن لیگ نے گڈ کاپ بیڈ کاپ کی حکمت عملی بہت کامیابی سے چلائی۔ جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو نواز شریف اور ان کی طرف سے مریم نواز نے بطور گڈ کاپ سیاسی قوتوں کو متحرک کرنے کے لیے خوب استعمال کیا۔  
دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت اور ڈیل کا الزام شہباز شریف کے سر جاتا رہا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف سیم پیج اور بیچ کا راستہ نکالنے والے گروپ کے سرخیل کے طور پر سامنے آئے۔
یہ سب کچھ اپوزیشن میں تو خوبی سے چلتا رہا مگر اب ن لیگ دوبارہ مسند اقتدار پر ہے۔ ان کا اپنا وزیراعظم اور وزیر اعلٰی ہے۔ دونوں نواز شریف کو اپنا قائد سمجھتے اور مانتے ہیں۔ بڑے فیصلوں کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔ کابینہ میں کس کو ہونا ہے۔ قیمتیں کم بڑھنی ہیں، الیکشن کب ہونے ہیں، سب میں نواز شریف کی رائے حرف آخر ہے۔
اب سوال یہ ہے کیا نواز شریف اس حکومت اور اس کے اقدامات سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں جس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور باپ اتحادی ہیں۔ سیم پیج اور ہائی برڈ سسٹم میں ان کی پارٹی بالرضا اور خوشی اقتدار میں شامل ہے اور ان کے وزیراعظم اس کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔ 

ن لیگ میں سے ش لیگ نکلنے کی خبریں اور تمام اندازے اور تجزیے وقت نے غلط ثابت کیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ میں سے ش لیگ نکلنے کی خبریں پی ٹی آئی کے وزرا اور کئی تجزیہ کار دیتے رہے ہیں۔ یہ تمام اندازے اور تجزیے وقت نے غلط ثابت کیے۔ شریف خاندان اور ن لیگ کے ارکان متحد اور یکجا ہیں۔
البتہ ن اور ش اگر کسی سیاسی دوراہے پر تھے بھی تو اب راستہ ش کا ہی ہے اور گویا ن لیگ اب ش لیگ ہی ہے، عملاً بھی اور اصولاً بھی۔ اس نئی ن لیگ نے اپنی سیاست اور حکومت دونوں کو پرانی ن لیگ سے علیحدہ استوار کرلیا ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا بیورو کریسی پر چیک رکھنا، پرانی ن لیگ میں تو بات تناؤ اور اختلاف تک آجاتی تھی مگر اب تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔  
سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف صاحب اس نئی طرز سیاست اور حکومت میں آن بورڈ ہیں؟ اس کا جواب اس کے علاوہ اور کچھ اور ڈھونڈنا مشکل ہے کہ اس تبدیلی کی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنیاد رکھی ہے۔ مستقبل میں وہ چاہیں بھی تو اس سے دامن نہیں چھڑا سکتے۔ مریم نواز کی توپوں کا ہدف بھی صرف بنی گالہ ہے۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی توپوں کا ہدف صرف بنی گالہ ہے (فائل فوٹو: عمران خان فیس بُک)

وفاقی اور صوبائی کابینہ میں ان کے سیاسی سفر کے رفیق بھی شامل ہیں اور تمام پالیسیوں کو اون بھی کرتے ہیں۔ یقیناً مریم نواز بھی اپنا سیاسی مستقبل اسی نئی ن لیگ کے ساتھ دیکھتی ہیں۔  
یہ نئی ن لیگ صرف حکومت میں ہی نہیں اپنے مزاج اور انداز سیاست میں بھی آصف زرداری کی پروان کردہ نئی پیپلز پارٹی کے قریب ہے۔  جس طرح زرداری صاحب کی ’حقیقت پسندانہ‘ اور مفاہمانہ سیاست پر پیپلز پارٹی اب آپریٹ کر رہی ہے اسی کو ن لیگ نے اپنا لیا ہے۔
اس سے پہلے اس جماعت کا نام پاکستان مسلم لیگ تھا اور اس کا مزاج روایتی مسلم لیگی مزاج تھا، پھر یہ مسلم لیگ ن ہوئی۔ اس نام کی وجہ صرف نواز شریف نہیں بلکہ انداز سیاست بھی تبدیل ہوا۔ اب انداز سیاست ایک بات پھر تبدیل ہوا ہے۔ اس کا نام تو شاید تبدیل نہ ہو مگر پارٹی کے اطوار اور سمت ضرور تبدیل ہو گئی ہے۔
دیکھنا یہ ہے اس تبدیلی کے بعد یہ پارٹی پرانی مسلم لیگ کے روپ میں جاتی ہے یا پھر دوبارہ 2013 والی کیفیت میں واپس آتی ہے۔ اس کا فیصلہ اگلے ایک برس میں ہو جائے گا مگر قرائن تو حقیقت پسندی کی طرف ہی جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

شیئر: