Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مخلوط حکومت ناکامیوں کی داستان، ماریہ میمن کا کالم

ڈالر کی اڑان اب 200 روپے سے بھی کراس کر چکی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ن لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت ایک ناکامی سے شروع ہو کر کئی ناکامیوں تک پہنچنے کی ایک داستان ہے۔
معیشت اس داستان کا ایک حصہ ہے مگر سیاست میں ناکامیوں کی داستان طویل ہے۔ یہ ناکامیاں حیران کن اور پریشان کن دونوں ہیں۔
حیران کن اس لیے کہ ن لیگ کی ٹیم نے ہمیشہ اپنی مہارت کے دعوے کیے اور پریشان کن اس لیے کہ ان ناکامیوں کے ساتھ ملک اور نظام ایک ایسی بند گلی میں آ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ 
معیشت اس وقت فری فال میں ہے۔ سٹاک ایکسچینج کی کچھ بحالی بس پہلے کچھ دنوں تک نظر آئی مگر اس کے بعد معیشت کے میدان میں کوئی اچھی خبر نہیں ملی۔
ڈالر کی اڑان اب 200 روپے سے بھی کراس کر چکی ہے۔ ملکی کرنسی پر اتنا زوال کئی برسوں میں نہیں آیا جتنا کچھ ہفتوں میں آ گیا ہے۔
کرنسی کے ساتھ کاروبار میں بھی اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت نے اس کا علاج درآمدات پر پابندیاں لگا کر کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ جزوقتی بھی ہو گا اور ماہرین کے مطابق نقصان دہ بھی۔
ملکی معیشت کو بیرونی محاذ سے اچھی خبر کی امید تھی مگر نہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے بھی کچھ حاصل ہوا اور نہ کسی دورے سے۔
تیل کی قیمتوں پر تمام معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک طوفان آ جائے گا اور اس کی سیاسی قیمت ناقابل تلافی ہو گی۔
اگر قیمتیں نہ بڑھائیں تو آئی ایم ایف بازو نہیں پکڑائے گا اور معیشت کی حالت بدستور دگرگوں رہے گی۔ یہیں پر معیشت کا دائرہ اور سیاست کا دائرہ آپس میں ملتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ سیاست کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ 

اگر تیل کی قیمتیں نہ بڑھائیں تو آئی ایم ایف بازو نہیں پکڑائے گا اور معیشت کی حالت بدستور دگرگوں رہے گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سیاست میں ناکامیوں کی فہرست طویل ہے۔ اس سے پیشتر متحدہ اپوزیشن نے سیاسی فرنٹ پر پی ٹی آئی کو اپ سیٹ کیا تھا۔
پہلے اپنے آپس کے اختلافات کو حل کیا، پھر پی ٹی آئی میں نقب لگا کر اراکین کی وفاداریاں تبدیل کی گئیں اور آخر میں اتحادی جماعتوں کو تنکا تنکا کر کے جوڑا گیا۔
انہی تنکوں کا جو گھونسلہ بنا وہ ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت کی صورت میں موجود ہے مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی مدھم سے مدھم تر ہے۔ 
سیاست میں سب سے اہم اب بیانیہ ہے۔ ن لیگ خصوصاً اور پی ڈی ایم عموماً کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں۔
پی ٹی آئی کے بیرونی سازش کے بیانیے سے لے کر کرپشن کے الزامات تک، یہ حکومت سیاسی میدان میں مکمل بیک فٹ پر ہے۔
ان کے اوپر جو الزامات لگ رہے ہیں ان میں جان ہے اور جو یہ کہ رہے ہیں وہ بے جان اور بے اثر نظر آتا ہے۔
مریم نواز جلسے کر کے کچھ مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر ان کے زور بیان میں وہ اثر نظر نہیں آتا جو اپوزیشن کے زمانے میں تھا۔
باقی سینئیر رہنما بشمول مولانا فضل الرحمان تو تقریباً اب پس منظر میں جا چکے ہیں۔
ن لیگ کے پاس اپنی کارکردگی پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور عمران خان پر تنقید اب موثر نہیں رہی کہ حکومت سے نکلنے کے بعد اب اصل موضوع سخن یہ حکومت ہے۔

لندن میں بیٹھے نواز شریف اور اسحاق ڈار نہ حکومت کو خیرباد کہ رہے ہیں اور نہ چلنے دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

پی ٹی آئی پر بدعنوانی کے الزامات اور کیسز کا بھی کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا۔ شیریں مزاری کو ایک پرانے کیس میں گرفتار کرنے کا ردعمل فوری طور پر اتنا شدید رہا کہ ان کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب اگر مزید بھی کارروائیاں ہوئیں تو بھی اس کا ردعمل اسی طرح متوقع ہے۔ 
سیاست کا دوسرا پہلو جوڑ توڑ اور سیاسی شطرنج ہوتا ہے۔ جوڑ توڑ کا اصل میدان پنجاب ہے۔
ایک مہینہ گزر جانے کو باوجود صوبائی حکومت دور دور تک بھی متوازن نہیں ہو سکی۔ سپریم کورٹ کے منحرف اراکین اسمبلی کے فیصلے کے بعد عملاً اکثریت بھی کھو چکی ہے اور پرویز الٰہی کے بدستور سپیکر کی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے ایوان میں بھی وہ اپنے منصوبوں میں بے بس نظر آتی ہے۔
کابینہ کی تشکیل بھی اب تک نہیں ہو سکی اور نہ ہی اہم انتظامی فیصلے ہو سکے ہیں۔
حمزہ شہباز اب تک اپنے والد اور تایا دونوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں مگر چوہدری پرویز الہیٰ حکومت سے باہر ہوتی ہوئے بھی ان پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ 
سیاست میں اپنے گھر کو اکٹھا رکھنا سب سے ضروری اور کٹھن ہے۔
عمران خان اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود اپنی پارٹی کو یکجا رکھنے میں تگ و دو ہی کرتے نظر آئے۔ ان کے کئی سینیئر ساتھی ان کا ساتھ چھوڑتے گئے جس کا اثر بھی سامنے ہے۔
ن لیگ میں حکومتی پالیسی اور انتخابات کو لے کر اختلافات واضح ہیں۔

عمران خان اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود اپنی پارٹی کو یکجا رکھنے میں تگ و دو ہی کرتے نظر آئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو حصہ بننے سے ہی صاف انکار کر دیا۔ مریم نواز اور ان کا حامی گُروپ کھلے عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومتی وزرا بذات خود انتخابات کی تاریخیں دے رہے ہیں۔
لندن میں بیٹھے نواز شریف اور اسحاق ڈار نہ حکومت کو خیرباد کہ رہے ہیں اور نہ چلنے دے رہے ہیں۔
انہوں نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کو ویٹو کر رکھا ہے مگر کوئی متبادل راستہ بھی نہیں دے رہے۔
ایک بجٹ وزارت خزانہ اسلام آباد میں بن رہا ہے اور ایک بجٹ اسحاق ڈار لندن میں بنا رہے ہیں۔ اب پتا نہیں ان میں کون سا بجٹ نواز شریف کی طرف سے منظور ہو گا جس کے بعد اس کو رسمی طور پر ایوان میں پیش کیا جائے گا۔
اس سیاسی کشمش اور کنفیوژن نے حکومت کی ناکامیوں کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔ 
ن لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت معیشت سے سیاست تک ناکامیوں کی ایک داستان ہے۔ معیشت میں فیصلے سازی کا بحران ہے اور سیاست میں بیانیے کا۔ حکومت پی ٹی آئی کی پچ پر کھیلتے ہوئے اسے ان کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے مگر اس بات کو نہیں سمجھتی کہ پی ٹی آئی اپنی پچ کی ماہر ہے۔

مریم نواز جلسے کر کے کچھ مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر ان کے زور بیان میں وہ اثر نظر نہیں آتا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان سطور کے لکھے جانے تک عمران خان نے 25 مئی سے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے جس کا مطلب یہ ہو گا اگلے کئی ہفتے بھی بیانیے کو تعین وہی کریں گے اور حکومت کی کسی غلطی سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں گے۔
اگر حکومت کو سروائیو کرنا ہے تو اسے اپنی پچ اور اپنی تکنیک ڈھونڈنی ہو گی ورنہ اس کا سروائیول مشکل نظر آتا ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں