نیب قانون کی تاریخ اور سیاستدان، ماریہ میمن کا کالم
نیب قانون کی تاریخ اور سیاستدان، ماریہ میمن کا کالم
پیر 27 جون 2022 5:50
ماریہ میمن
عمران خان کے علاؤہ تمام سیاستدان نیب کے اختیارات کم کرنے کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
نئی اتحادی حکومت نے اپنے دعوے کے مطابق نیب قانون میں ترامیم کو قانونی شکل دے دی ہے۔
یہ ترامیم کئی نشیب و فراز سے گزری ہیں۔ پہلے تو حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ حکومت کی سب سے بڑی ترجیح تھی۔ پھر جب قانون پاس بھی ہوا تو صدر مملکت کی طرف سے قانون کو کئی اعتراضات کے ساتھ واپس کیا گیا۔
آئین کے مطابق اگر صدر اپنی رضامندی نہ بھی دیں تو ایک خاص مدت کے بعد پارلیمنٹ سے پاس کردہ قانون حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں جائیں گے۔
اس طرح باقی دیگر سیاسی معاملات کی طرح نیب قانون کا بھی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی طرف سے ہو گا۔
قومی احتساب بیورو یا اس کے انگریزی مخفف نیب کی دو دہائیوں پر محیط ایک اپنی ہنگامہ خیز تاریخ ہے۔ اس کے اہم کردار جنرل پرویز مشرف ہیں جنہوں نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے ایک مہینے بعد ہی نیب کے ادارے اور قانون کی داغ بیل ڈالی۔
اگرچہ پرویز مشرف مارشل لا سے پہلے نواز شریف احتساب بیورو بنا چکے تھے، بلکہ فاروق لغاری کی نگران حکومت میں پہلا احتساب سیل بھی بنایا گیا تھا، مگر پرویز مشرف کا ادارہ دیرپا منصوبے کے ساتھ وجود میں آیا۔
اگرچہ اس کا پہلا ہدف تو ن لیگ تھی مگر پیپلز پارٹی کے کئی اہم لیڈر بھی نیب کے مہمان بنے۔ اس کے ساتھ کئی سیاستدان، بیورو کریٹ اور بزنس مین بھی نیب کے نشانے پر رہے۔ پرویز مشرف کے ہی دور میں نیب کی کارروائیوں کے شدت میں کچھ کمی بھی آئی اور ابتدائی قانون میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی، مگر مجموعی طور پر نیب کا ایک اثر اور ڈر رہا۔
پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ہی نیب کے بارے میں بھی اقدامات شروع ہوئے کہ پی پی پی کا واضح ایجنڈا نیب کو ختم کرنا تھا۔
پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم نے ایوان میں اس کا اعلان بھی کیا اور اس کے بعد کچھ عرصے تک نیب کا بجٹ بھی روکا گیا، لیکن نیب قانون میں ترامیم نا ہو سکیں۔ اسی دوران پی پی پی اور ن لیگ کا اتحاد ختم ہوا اور ن لیگ دوبارہ اپوزیشن میں چلی گئی۔
چونکہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت ضروری ہے اس لیے ن لیگ کا کردار بھی اہم تھا۔ ن لیگ نے نا صرف نیب میں کسی بھی قسم کی ترامیم کی مخالفت کی بلکہ جب پیپلز پارٹی حکومت نے یک طرفہ طور پر چیئرمین نیب کو تعینات کیا تو ن لیگ کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے سپریم کورٹ میں کیس کر کے ان کو ہٹوا دیا۔
اس دوران سپریم چیف جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے بھی حکومت کے یک طرفہ اقدامات کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اسی دوران مختصر عرصے میں نیب کے کئی چیئرمین بھی بدلے گئے اور نیب تو زیادہ متحرک نا ہوا مگر نیب قانون موجود رہا۔
2013 میں ن لیگ کی حکومت کے آنے کے بعد نیب قانون میں تبدیلی ان کے ایجنڈا پر نہیں تھی اس لیے پہلے والی صورتحال برقرار رہی۔ پیپلز پارٹی کا اصرار بھی کچھ کم ہو گیا اور دونوں جماعتوں نے مل کر ریٹائرڈ بیورو کریٹ چوہدری قمر زمان کو چیئرمین نیب تعینات کیا۔
نیب اس دوران خبروں میں رہا مگر اس کی کاروائیوں میں سکوت ہی رہا۔ یہ سکوت پانامہ کیس اور چیئرمین نیب کے طور پر جسٹس جاوید اقبال کی تعیناتی کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔ پیپلز پارٹی نے اس دوران مرکز میں نیب قانون کی تبدیلی کے بجائے سندھ میں قانون سازی کر کے نیب کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے کے کوشش کی، لیکن اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کیسز شروع ہونے کے بعد پی ٹی آئی نیب کی سب سے بڑی سپورٹر کے طور پر سامنے آئی اور سپریم کورٹ کے اندر اور باہر پانامہ اور دیگر کیسز کو اس نے لیڈ کیا۔
ن لیگ اور پی پی پی کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کئی سرکاری افسر اور بزنس مین بھی نیب کی زد میں آئے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان نے احتساب اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو الیکشن کا نعرہ بنایا اور اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کی کارروائیاں بھی تیز تر ہو گئیں۔
گرفتاریاں اور اس کے ساتھ ضمانتیں روز کا معمول رہیں۔ سزا تو صرف نواز شریف کے کیس میں ہوئی، لیکن نئے کیس بنائے جاتے رہے تاوقتیکہ عمران خان کی حکومت رخصت ہوئی۔ تحریک عدم اعتماد کے محرکات میں اس وقت کی اپوزیشن کا یہ بھی خوف بھی تھا کہ الیکشن کے قریب احتساب کی کارروائیوں کا تیسرا دور بھی چلنا تھا۔ اس کا اظہار ن لیگ کے ایک اہم رہنما کی طرف سے بھی حال ہی میں کیا گیا۔
آج کے دن عمران خان اپوزیشن سے بھی باہر ہیں۔ شہباز شریف وزیر اعظم اور راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہیں۔ نیب قانون ترامیم کے نتیجے میں کیس بنانے، گرفتاری اور دیگر اقدامات کے اختیارات میں واضح کمی ہو چکی ہے۔
جو مقدمات بن چکے ہیں اور عدالتوں میں چل رہے ہیں ان پر تو نیب ترامیم کا براہ راست اثر نہیں ہو گا، مگر بالواسطہ طور پر ایک ریلیف کا ماحول ضرور بن چکا ہے۔ آج کے دن تک عمران خان کے علاؤہ تمام سیاستدان نیب کے اختیارات کم کرنے کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ نیب کے اب تک سروائیو کرنے میں اسٹیبلشمںٹ کی ایک سپورٹ بھی موجود رہی ہے، البتہ اس سے پہلے عمران خان کی حکومت کے دوران ہی یہ تاثر بھی رہا کہ احتساب کا عمل گورننس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے آرڈیننس بھی سامنے آیا اور نیب قانون کمیٹی میں بھی زیر غور رہا۔ دوسری طرف اعلیٰ عدالت کی طرف سے بھی بھی نیب کے قانون کے نفاذ میں کردار دیکھنے میں آیا۔ اب معاملہ ایک بار پھر کورٹ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے؟
کیا پارلیمنٹ کے قانون بنانے کے اختیار کو من و عن مانا جائے گا یا پھر کوئی برعکس فیصلہ بھی سامنے آ سکتا ہے؟ معروضی حالات اور تاریخ کا سبق تو یہی ہے کہ نیب کے متحرک ہونے کا تعلق سیاسی دور سے ہی ہوتا ہے۔
اس لیے اب حکومت کے ہوتے ہوئے تو ایسا مشکل ہے۔ اگلے الیکشن کا دور ہی نیب کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔