پاکستان کی وفاقی حکومت نے احتساب کے ادارے ’نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو‘ کے موجودہ چیئرمین جاوید اقبال کو نئے چیئرمین کی تعیناتی تک مدت ملازمت توسیع دیتے ہوئے نیب قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے جب سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا ہے وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ سیشن جج سے شروع ہونے والے ان کے عدالتی سفر کا اختتام بطور سینیئر جج سپریم کورٹ ہوا اور اس دوران وہ قائم مقام چیف جسٹس بھی رہے۔
ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ رہنے کے ساتھ وہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
نیب جس طرح کام کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے گا: چیئرمین نیبNode ID: 574366
سابق حکومت نے اکتوبر 2017 میں انھیں چار سال کے لیے چیئر مین نیب تعینات کیا تھا۔ ان کا نام اس وقت کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تجویز کیا تھا جسے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تسلیم کیا تھا۔ تاہم اب ان کو توسیع دینے یا از سرنو تعیناتی پر اپوزیشن کی مخالفت کے بعد حکومت نے نیب قانون میں ترمیم کرتے ہوئے نیا آرڈیننس جاری کرتے ہوئے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال یکم اگست 1936 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ وہ 1971 میں پبلک پراسیکیوٹر بنے۔ 1981 میں محکمہ قانون میں ڈپٹی سیکرٹری اور 1982 میں بحثیت قائم مقام سیکرٹری قانون فرائض سرانجام دیے۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے 1982 میں بطور سیشن جج عدالتی کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ 1990 سے 93 کے دوران بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار رہے اور اسی سال ہائی کورٹ کے جج بھی بن گئے۔

سنہ 1999 میں پرویز مشرف نے جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور پی سی او جاری کیا تو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔
وہ 4 فروری 2000 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ صرف دو ماہ بعد 28 اپریل 2000 کو جسٹس جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔
سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد اُنھیں پاکستان کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا تھا۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو وردی میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ دیا اور انھیں وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔
اس کے بعد 3 نومبر 2007 میں پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ملک میں ایمرجنسی لگا دی تھی۔ تاہم اب کی بار جسٹس جاوید اقبال نے پرویز مشرف کا فیصلہ ماننے کے بجائے اس سات رکنی بینچ کا حصہ بنے جس نے ایمرجنسی کے فوری بعد یہ حکم دیا تھا کہ انتظامیہ ان احکامات کو تسلیم نہ کرے۔ اسی طرح کوئی جج عبوری آئینی حکم نامے پر حلف نہ اُٹھائے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں جن ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ان میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی شامل تھے۔
