بل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں جبکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی جبکہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا جب تک بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فوائد کا حصول موجود نہ ہو۔
چیئرمین نیب کے تقرر کا طریقہ کار
چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے۔ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینیئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج دیا جاسکے گا۔
بل کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کی مدت کے لیے ہوگی جبکہ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔
نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا جبکہ نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا۔
بل کے متن کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر چیئرمین نیب کے تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔
پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔ چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جاسکے گا۔ ڈپٹی چیئرمین کے تقرر کا اختیار صدر سے لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔
نیب عدالتیں ایک سال میں فیصلہ سنانے کی پابند
منظور کردہ بل کے مطابق احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کرنے کی پابند ہوں گی۔ نئے قانون کے تحت نیب انکوائری کی مدت کا تعین بھی کر دیا گییا ہے جس کے مطابق نیب 6 ماہ کے حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا۔ گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب عدالت میں پیش کرنے پابند ہوگا جبکہ کیس کے دائر ساتھ گرفتاری نہیں ہوسکتی۔
بل کے مطابق نیب گرفتاری سے پہلے ٹھوس ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا۔ نیب قانون میں ترمیم کرکے ریمانڈ 90 دن سے کم کرکے 14 دن تک کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ملزم کے لیے اپیل کا حق 10 روز سے پڑھا کر 30 روز کر دیا گیا ہے۔کسی کے خلاف کیس جھوٹا ثابت ہونے پر ذمہ دار شخص کو 5 سال تک قید کی سزا ہو گی۔