اگر آپ سرکاری، نیم سرکاری یا کسی نجی ادارے میں ملازم ہیں اور آپ کی تنخواہ ماہانہ 50 ہزار روپے سے کم ہے تو آپ کو ٹیکس کے معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط میں سالانہ چھ لاکھ روپے سے کم تنخواہ دار افراد پر کوئی ٹیکس نہیں لاگو نہیں کیا جا رہا۔
مزید پڑھیں
-
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات، کن شرائط پر اتفاق؟Node ID: 679601
-
حکومت کا زائد آمدن اور بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس لگانے کا فیصلہNode ID: 680236
وفاقی حکومت نے ٹیکس کی شرح میں کمی کے فیصلے پر آئی ایم ایف نے اعتراضات کے بعد تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں کچھ تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 50 ہزار روپے ماہانہ یعنی سالانہ 6 لاکھ روپے کمانے والوں کو انکم ٹیکس کی ادائیگی میں چھوٹ دی گئی ہے۔
پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ یعنی 6 لاکھ سے 12 روپے سالانہ تک تنخواہ پر ڈھائی فیصد سے ٹیکس عائد ہوگا۔
بجٹ دستاویز کے مطابق دو لاکھ سے اضافی رقم پر20 فیصد اور تین لاکھ سے زیادہ تنخواہ پر 25 فیصد ماہانہ ٹیکس لگے گا۔ اس کے علاوہ فکسڈ ٹیکس30 جون 2023 سے ختم کر دیا جائے گا۔
اب نئے مالی سال میں آپ کا آجر ٹیکس سلیب میں کی جانے والی تبدیلیوں اور نئی شرح کے حساب سے ٹیکس کٹوتی کرے گا لیکن یاد رکھیے گا کہ ٹیکس کٹوتی کے باوجود آپ بری الذمہ نہیں ہو جاتے بلکہ آپ کو ہر صورت اپنے ٹیکس گوشوارے خود سے فائل کرنا ہوتے ہیں۔
ٹیکس سلیبز میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟
10 جون کو بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے جو بجٹ دستاویزات ایوان میں پیش کیں تھیں ان کےمطابق اگلے مالی سال کے دوران 12 لاکھ سالانہ سے کم آمدن والے افراد پر 100 روپے انکم ٹیکس لاگو کیا گیا تھا جبکہ 6 لاکھ سے کم آمدن والے افراد انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ حکومت نے ٹیکس سلیب 12 سے کم کرکے 7 کر دیے تھے۔

نظرثانی کے بعد بھی سلیب کی تعداد اگرچہ سات ہی رکھی گئی ہے تاہم تاہم نظرثانی شدہ سلیب کے تحت اگرچہ چھ لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ والے افراد پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا جبکہ دوسرے سلیب میں 12 لاکھ تک آمدنی والے افراد ہیں ان پر بھی صرف 100 روپے کے بجائے اڑھائی فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوگا۔
ایسے افراد جن کی سالانہ آمدن 12 لاکھ سے 24 لاکھ تک ہے ان افراد کے لیے 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر سات فیصد کی فکسڈ شرح سے ٹیکس لاگو کیا گیا تھا لیکن اب اس میں تبدیلی کرتے ہوئے 12 لاکھ سے 24 لاکھ تک کی رقم پر 12 اعشاریہ فیصد جبکہ 12 لاکھ سے کم رقم پر فکسڈ 15000 روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
جن افراد کی سالانہ تنخواہ 24 لاکھ سے زیادہ اور 36 لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ 84 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس تجویز کیا گیا تھا لیکن اب اس تجویز کو تبدیل کرتے ہوئے 24 لاکھ تک رقم پر ایک لاکھ 65 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس جبکہ اس سے اوپر کی رقم پر 20 فیصد سالانہ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
36 لاکھ سے 60 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے دو لاکھ 34 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر ساڑھے 17 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا تھا جسے نظرثانی کے بعد 36 لاکھ تک کی آمدن پر فکسڈ چار لاکھ، پانچ ہزار جبکہ اس سے اوپر کی آمدن یعنی 60 لاکھ تک 25 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔
60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد پر چھ لاکھ 54 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 60 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر اس کو تبدیل کرتے ہوئے 60 لاکھ آمدن پر 10 لاکھ 5 ہزار جبکہ اس سے اوپر کی رقم پر 32 اعشاریہ پانچ فیصد سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
آخری سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے، انھیں اب 20 لاکھ چار ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 32.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا تھا تاہم اب وہ ایک کروڑ 20 لاکھ کی آمدن تک 29 لاکھ 55 ہزار جبکہ اس سے زائد آمدن پر 35 فیصد ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔
نئی شرح کے لحاظ سے آپ کا ٹیکس کتنا بنے گا؟
بجٹ دستاویزات کے مطابق سات سلیب رکھے گئے ہیں جن میں کہیں فکسڈ رقم اور کہیں پر فیصد کے حساب سے ٹیکس کی شرح رکھی گئی ہے۔
پہلے سلیب کے تحت 6 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر کوئی ٹیکس نہیں لاگو نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر کسی کی آمدن 6 لاکھ سے کم ہے تو اسے انکم ٹیکس کی مد میں کچھ بھی رقم ادا نہیں کرنا پڑتی۔ تاہم گوشوارے پھر بھی لازمی جمع کرانا ہوں گے۔
