Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غلطیاں درست کرنے کا حکم، ’10 سالہ جدوجہد رنگ لے آئی‘

محمد محسن نے گزشتہ دس سالوں کے دوران متعلقہ اداروں کو سینکڑوں خطوط لکھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے وفاقی محتسب نے 100 روپے والے کرنسی نوٹ میں پائی جانے والی دو غلطیوں کو 16 سال بعد درست کرنے کا حکم دیا ہے۔
وفاقی محتسب نے یہ حکم کراچی کے ایک 75 برس کے شہری کی درخواست پر دیا ہے جو گزشتہ دس برس سے ان غلطیوں کو درست کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
درخواست گزار ریٹائرڈ سرکاری ملازم  محمد محسن نے نشاندہی کی تھی کہ ’پاکستانی 100 روپے والے کرنسی نوٹ میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے لقب ’قائداعظم‘ کے انگریزی ہجے اور نوٹ کی پشت پر طبع کی گئی تصویر کا مقام درست نہیں لکھا گیا۔‘
محمد محسن کے مطابق قائداعظم کی انگریزی میں درست سپیلنگ Quaid-i-Azam ہے، یہی سپیلنگ آئین پاکستان اور کئی سرکاری دستاویزات میں مستعمل ہے لیکن 100 روپے والے نوٹ پر انگریزی حرف ’آئی‘ کی بجائے ’ای‘ کا استعمال کرتے ہوئے قائداعظم کی انگریزی سپیلنگ Quaid-e-Azam لکھی گئی ہے جو غلط ہے۔
اسی طرح نوٹ پر شائع ہونے والی قومی یادگار کی تصویر کے ساتھ ’قائداعظم ریذیڈنسی، زیارت – کوئٹہ‘ لکھا گیا ہے  یعنی زیارت کو کوئٹہ کی ایک تحصیل یا حصہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ زیارت کوئٹہ کی جغرافیائی حدود میں نہیں آتا اور دونوں علیحدہ علیحدہ اضلاع ہیں۔
خیال رہے کہ قائداعظم ریذیڈنسی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 125 کلومیٹر دور ضلع زیارت میں واقع مشہور عمارت ہے جسے انگریزوں نے 1892 میں تعمیر کیا تھا۔ بانی پاکستان نے اپنی موت سے قبل اپنی زندگی کے آخری دو ماہ یہاں قیام کیا تھا۔ جناح کے انتقال کے بعد اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا گیا۔

غلطیوں کی نشاندہی درخواست گزار ریٹائرڈ سرکاری ملازم  محمد محسن نے کی تھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سٹیٹ بینک نے نومبر 2006 میں پانچویں جنریشن کے 100 روپے کے نئے ڈیزائن کیے گئے کرنسی نوٹ کا اجراء کیا تھا۔ اس نوٹ کی پشت پر زیارت میں واقع قائداعظم ریذیڈنسی کی تصویر اور نام  طبع کیے گئے۔ اس سے پہلے 100 روپے کے نوٹ پر اسلامیہ کالج پشاور کی تصویر تھی۔
محمد محسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ دس سال پہلے ایک دن نوٹوں کو غور سے دیکھتے ہوئے انہوں نے 100 روپے کی پشت پر انتہائی باریکی سے لکھے گئے قائداعظم کے انگریزی ہجے اور  زیارت کے جغرافیہ سے متعلق دو غلطیوں کو نوٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک سینیئر سٹیزن ہونے کے ناطے یہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ہمیں بابائے قوم کے نام کے درست ہجے ہی معلوم نہیں۔‘
محمد محسن نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ دس سالوں کے دوران متعلقہ اداروں اور اعلیٰ عہدے داروں کو سینکڑوں خطوط لکھے اور غلطیوں کی نشاندہی کی۔
’میں نے صدر، وزیراعظم سیکریٹریٹ، وزیر خزانہ، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن، سٹیٹ بینک کے گورنر محمد اشرف وتھرا اور اس کے بعد آنے والے ہر نئے گورنر کو خطوط لکھے۔ تاریخ دانوں اور معروف لکھاریوں کو بھی توجہ مبذول کروائی مگر کسی نے کبھی کسی خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘
محمد محسن نے میڈیا پر بھی کئی بار یہ معاملہ اجاگر کیا جس کے جواب میں سٹیٹ بینک کے ایک ترجمان نے وضاحت کی تھی کہ ’قائداعظم‘ اردو کا ایک مرکب لفظ ہے جسے انگریزی میں Eاور  I دونوں حروف کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔
ترجمان نے بتایا تھا کہ بینک نوٹوں کی پچھلی جانب قومی یادگاروں کی تصویریں ہیں اور ان مقامات کی جغرافیائی شناخت قریبی شہروں کے حوالے کے ساتھ کی جاتی ہے۔

محمد محسن نے بتایا کہ جنوری 2022 میں انہوں نے وفاقی محتسب کے پاس درخواست جمع کرائی جس پر انہوں نے متعلقہ حکام کو نوٹسز بجھوائے اور اب اپنا فیصلہ سنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی دس سالہ جدوجہد رنگ لے آئی۔ بابائے قوم کے نام سے متعلق غلطی کو درست کرا کر انہوں نے اپنا مقصد پالیا ہے۔ وفاقی محتسب کا فیصلہ ملک کے 75ویں سالگرہ پر عوام کے لیے ایک تحفہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی کے نام اور ایکٹ کے ساتھ ساتھ کئی سرکاری دستاویزات اور دفاتر میں اب بھی  بابائے قوم کے نام کو غلط لکھا جارہا ہے وہ انہیں بھی درست کرائیں گے۔
وفاقی محتسب کےعلاقائی دفتر کوئٹہ کے سربراہ سرور بروہی نے بتایا کہ ’وفاقی محتسب نے شکایت گزار کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے سٹیٹ بینک کو دونوں غلطیوں کو درست کرنے کا حکم دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کا پرانے نوٹوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا، سٹیٹ بینک کو نئے نوٹوں میں غلطی درست کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’وفاقی محتسب نے سرکاری دستاویزات میں قائداعظم کے انگریزی ہجے لکھتے ہوئے یکسانیت اور معیاری املا رائج کرنے کے لیے کیبنٹ ڈویژن کو بھی ہدایات جاری کی ہیں۔‘
سرور بروہی نے محمد محسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’محمد محسن نے انتہائی باریک غلطی کی نہ صرف نشاندہی کی اور برسوں کی ناکام کوششوں اور ضعیف العمر ہونے کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ یہ ان کی ملک اور بابائے قوم سے محبت کا ثبوت ہے۔‘

شیئر: