اگر آپ دو مربع زمین کے مالک ہوں اور لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے پاس جا کر اپنی زمین کا فرد یعنی کاغذات نکلوائیں اور اس وقت پتا چلے کہ آپ دو مربع نہیں بلکہ دو مرلے کے مالک ہیں تو آپ پر کیا گزرے گی؟
یقیناً جھٹکا لگے گا، غصہ آئے گا اور آپ پریشان ہو جائیں گے۔ آپ سوچنے لگیں گے کہ کہیں اپنے علاقے کے پٹواری کے ساتھ کبھی کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا؟ آپ کے کسی مخالف نے پٹواری سے ساز باز کر کے آپ کو زمین سے محروم تو نہیں کر دیا؟ آپ اپنے پٹواری پر شک کریں گے کہ یہ سارا کچھ اسی کا کیا دھرا ہے۔
صورت حال اس وقت مزید پریشان کن ہو جاتی ہے جب آپ شریف النفس انسان ہوں اور عمر کے اس حصے میں ہوں کہ جہاں بھاگ دوڑ کرنا ممکن نہ ہو۔ کورٹ کچہریوں کے چکروں اور وکیلوں کے جھمیلے سہنے کے قابل بھی نہ ہوں۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں پگھلتے ہوئے گلیشیئر سے پہاڑی کمیونٹیز کو خطرہNode ID: 683786
صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے حاجی قربان حسین کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ وہ دو بھائی ہیں اور عمر کی لگ بھگ سات دہائیاں گزار چکے ہیں۔ وہ 500 کنال زمین کے مالک ہیں جو ان کے والد کی طرف سے انھیں وراثت میں ملی تھی اور ان کے زیر استعمال بھی ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ جب سوچا کہ زمین اپنے بچوں کے نام پر منتقل کر دی جائے تاکہ انہیں کل کوئی پریشانی نہ ہو تو معلوم ہوا کہ زمین تو ہمارے نام پر ہی نہیں ہے۔
جب خسرہ اور کھیوٹ کی تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ جو زمین ہمارے پاس ہے وہ ایسے افراد کے نام ہے جو اس گاؤں سے تعلق نہیں رکھتے۔
انھوں نے بتایا کہ ’مزید تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ جو زمین ہماری ملکیت ہے اور ہمارے زیر استعمال ہے اور کاغذوں میں کسی اور کے نام ہے وہ در حقیقت ہم بھائیوں کے غلط ناموں پر رجسٹر کی گئی اور ایسا کاغذات میں متعدد جگہوں پر کیا گیا ہے۔‘

حاجی قربان حسین کا کہنا تھا ’ایک صفحے پر اگر قربان حسین ہے تو اگلے صفحے پر فرمان حسین لکھا گیا ہے۔ ایک جگہ پر میرا بھائی اللہ نواز ہے تو دوسرے صفحے پر اسے میرا بیٹا لکھا گیا ہے۔ ایک جگہ پر میری قوم درست لکھی گئی تو اس سے اگلی جگہ پر قومیت ہی تبدیل کر دی گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب ہم نے ریکارڈ کو درست کرانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک تھکا دینے والا طویل عمل ہے۔‘
قربان حسین کے مطابق ’ہمیں ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر اور ایک افسر سے دوسرے افسر کے پاس بھیجا جاتا ہے لیکن کام کوئی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔ ہمیں کہا گیا کہ گاؤں کے نمبردار اور دو دو گواہوں کو لے کر آئیں جو سٹام پیپر پر لکھ کر دیں کہ آپ کی اصلی قومیت کیا ہے اور اس کے ساتھ زمین کے بارے میں بھی گواہی دیں۔‘
قربان حسین کہتے ہیں ’ایک چیز سمجھ سے باہر ہے کہ جب غلطی محکمے کی ہے تو گواہ اور سٹام میں کیوں ڈھونڈتا اور بنواتا پھروں؟ سرکاری دفاتر میں بیٹھے افراد کام نہیں کرتے لیکن عوام کو ذلیل کرتے ہیں۔ جب ایک جگہ پر نام اور معلومات درست ہیں تو دوسری جگہ پر جا کر کسی اور نے تو غلط اندراج نہیں کیا یہ تو محکمے کی ہی غلطی ہے اور اسے ہی درست کرنا چاہیے۔‘
اردو نیوز نے اس حوالے سے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی سے رابطہ کیا تو ترجمان نادیہ احمد نے کہا کہ پنجاب میں کچھ عرصہ قبل زمینوں کا تمام ریکارڈ جو کاغذات پر موجود تھا اسے کمپیوٹر پر منتقل کیا گیا ہے۔
یہ ریکارڈ نہ صرف کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے بلکہ یونیورسل سسٹم سے لنک کر کے پنجاب بھر میں 200 سے زائد مراکز میں کسی بھی ضلع یا تحصیل کی زمین کا ریکارڈ یا فرد فراہم کرنے کی سہولت دے دی گئی ہے۔
