Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پگھلتے ہوئے گلیشیئر سے پہاڑی کمیونٹیز کو خطرہ

پاکستان میں 33 گلیشیئر جھیلوں کے پھٹے کا خطرہ موجود ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان موسمیاتی تبدیلوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبر ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے بدترین اثرات صوبہ گلگت بلتستان میں نظر آئے ہیں جہاں گلیشیئر پگھلنے سے کئی علاقوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔
گزشتہ ماہ گلیشیئر پگھلنے سے وادی ہنزہ کے ایک گاؤں حسن آباد میں سیلابی ریلا آیا اور اپنے ساتھ نو گھروں کو بہا کر لے گیا جبکہ درجنوں متاثر ہوئے۔
گاؤں کے رہائشی جاوید راحی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو قیامت خیز صبح کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ ابھی روشنی ہونا شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پہاڑوں سے پانی کا ریلہ اس شدت سے حسن آباد میں داخل ہوا کہ دو چھوٹے ڈیم اور ایک پل بھی ساتھ بہہ گیا۔
یہ پل حسن آباد کے باسیوں کے لیے دیگر مقامات تک رسائی کا واحد ذریعہ تھا۔
’قیامت کا دن تھا۔ خواتین اور بچے خوف سے چیخ رہے تھے۔‘
پاکستان میں دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ گلیشیئر موجود ہیں جن کی تعداد سات ہزار ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر تیزی سے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں جھیلوں کے بننے کا سبب بھی بنے ہیں۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ ان گلیشیئر جھیلوں میں سے 33 ایسی ہیں جن کے پھٹنے کا خطرہ موجود ہے جس سے چند گھنٹوں میں ہی لاکھوں مربع میٹر پانی جاری ہوگا جیسا کہ حسن آباد میں ہوا۔
اس سال گرمی کی لہر کے باعث 16 گلیشیئر جھیلیں پھٹ چکی ہیں جبکہ عموماً ہر سال پانچ یا چھ ایسے واقعات رونما ہوتے تھے۔
حسن آباد میں سیلاب آنے کے بعد کئی افراد بے گھر ہوئے جنہیں عارضی خیموں میں منتقل کیا گیا۔

حسن آباد میں آنے والے سیلابی ریلے سے دو ڈیم بھی تباہ ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

جاوید راحی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اس طرح بے گھر ہو جائیں گے۔
سیلاب سے متاثرہ خاتون زاہدہ شیر نے بتایا کہ پانی کا بہاؤ اس قدر شدید تھا کہ جو عمارتیں مضبوط سمجھی جاتی تھیں وہ بھی ہل کر رہ گئیں۔
پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا معاشی انحصار عموماً کھیتوں، باغات، مویشیوں اور سیاحت پر ہوتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس سب کو خطرہ لاحق ہے۔
زاہدہ شیر جو ایک مقامی این جی او میں بطور ریسرچر کام کرتی ہیں کا کہنا ہے کہ ’ہماری معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے اور لوگوں کے پاس اتنے ذرائع نہیں ہیں کہ وہ کہیں اور منتقل ہوں۔’
حسن آباد کے شمال میں پسو نامی ایک اور گاؤں واقع ہے جہاں کی 70 فیصد آبادی سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی نذر ہو چکی ہے۔
پسو گاؤں کے جنوب میں سفید گلیشیئر ہے، شمال میں بتورا گلیشیئر جبکہ مشرق میں دریائے ہنزہ بہہ رہا ہے۔
مقامی سکالر علی قربان کا کہنا ہے کہ ’پسو گاؤں ان تین اژدھوں کے منہ میں واقع ہے۔‘
پسو کے ایک سیاسی کارکن آصف ساکھی کا کہنا ہے کہ پہاڑوں میں رہنے والی کمیونیٹیز گلیشیئر کے پگھلنے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔

شیئر: