Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف معاہدہ، پاکستان کو فوری طور پر کیا فوائد حاصل ہوں گے؟

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معطل شدہ قرض پروگرام کو بحال کرنے پر اتفاق ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ اس کا پاکستان کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کا سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت بورڈ کی منظوری کے بعد ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی۔
آئی ایم ایف کے اعلان کے بعد حکومت اور خاص کر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور بلاول بھٹو کی قیادت میں وزارت خزانہ اور دفتر خارجہ کی ٹیموں کو آئی ایم ایف پروگرام بحال کرانے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک زبردست ٹیم ورک تھا۔ فنڈ کے ساتھ معاہدہ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے میں معاون ہوگا۔‘
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی رقم ملنے سے ایسا کیا ہو جائے گا کہ حکومتی حلقے اس پر خوشی منا رہے ہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’یہ خوشی بے جا نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد پاکستان نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے بلکہ اس کے قلیل مدت میں پاکستانی کرنسی اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘

پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا؟

معاہدے کے مثبت اثرات کے حوالے سے معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے اور معیشت کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ختم ہوئی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام بذاتِ خود کوئی معیشت ٹھیک کرنے کا مستقل حل نہیں بلکہ عارضی طور پر اس سے ملک کی معیشت کو سنبھلنے کا موقع مل گیا ہے۔
مہتاب حیدر کے بقول آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے نہ صرف پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی رقم ملے گی بلکہ دیگر مالیاتی اداروں جیسے ورلڈ بینک، ایشیئن ڈیویلپمنٹ بینک سے مختلف پروگرامز کی مد میں مزید قرض ملے گا اور دوست ممالک سے بھی رقوم کی آمد متوقع ہے۔

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کے پروگرام سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہو گی‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’اس طرح کل ملا کر آٹھ سے دس ارب ڈالر کی اضافی رقم پاکستان کو مل سکتی ہے جس سے ڈالر کی قیمت مستحکم ہو گی اور معیشت بہتری کی طرف جائے گی۔‘
مہتاب حیدر سمجھتے ہیں کہ ’اس عارضی بہتری سے حکومت کو موقع مل جائے گا کہ وہ معیشت کے دوسرے مسائل کی طرف توجہ دے سکے جس میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، دوسرا ملکی پیداوار خاص کر زرعی پیداوار میں اضافہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا ریلیف اگلے تین سے چار ماہ تک کا ہے اور اگر حکومت نے اس دوران اقدامات کر کے معیشت کو نہ سنبھالا تو ملک پھر اسی دوراہے پر کھڑا ہو جائے گا۔

مہنگائی میں کمی آئے گی؟

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کے پروگرام سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہو گی اور اس میں روز روز گراوٹ دیکھنے میں نہیں آئے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے مارکیٹ مستحکم ہو گی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا جبکہ مہنگائی میں کمی کا بھی امکان ہے۔‘
خرم شہزاد کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے کمی سے مہنگائی کسی حد تک کم ہو سکتی ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کوئی طویل المدتی حل نہیں ہے بلکہ حکومت کو لانگ ٹرم میں اپنے خرچے کم کر کے اور آمدنی بڑھا کر معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنا ہو گا۔ اس کے لیے توانائی کا بحران حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔‘

خرم شہزاد کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں کمی سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کیا سبسڈی پر آئی ایم ایف کو اعتراض نہیں؟

آئی ایم ایف سے معاہدے سے قبل حکومت نے نہ صرف دو ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے کم آمدنی والے افراد کے لیے سبسڈی کا اعلان کیا تھا بلکہ پنجاب میں وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے 100 یونٹ تک استعمال کرنے والے بجلی صارفین کے بل ختم کرکے صوبائی حکومت کی جانب سے ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو ٹارگٹڈ سبسڈی پر اعتراض نہیں ہوتا اور خاص طور پر جب اس کی ادائیگی کے لیے حکومت کے پاس کوئی واضح ذریعہ آمدن ہو۔
’پنجاب حکومت کی سبسڈی پر شاید اس لیے اعتراض نہیں کیا گیا کہ وہ ایسے افراد کو دی جا رہی ہے جو سوشل سیفٹی نیٹ میں آتے ہیں اور شدید غربت کا شکار ہیں۔‘
مہتاب حیدر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جانے والی سبسڈی پر اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کو دی جاتی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ معطل شدہ قرض پروگرام کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
’ایک سٹاف لیول معاہدے سے جو ابھی بھی بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، ایک توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت تقسیم ہونے والی رقم چار ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی جسے سات ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے اور اگلے سال جون تک توسیع دی جا سکتی ہے۔‘

شیئر: