’پارلیمنٹ کا متبادل نہیں، نیب ترامیم کا معاملہ واپس بھیجنا چاہتے ہیں‘
’پارلیمنٹ کا متبادل نہیں، نیب ترامیم کا معاملہ واپس بھیجنا چاہتے ہیں‘
منگل 19 جولائی 2022 13:23
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا نیب ترامیمی پاس ہونے کے وقت پی ٹی آئی کہان تھی؟ (فوٹو: پی ٹی آئی)
پاکستان کی سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیجیں۔
منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے پاس لوگوں کا اعتماد ہے۔ اس ملک، قوم اور آئین کے بارے میں سوچیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الحسن بنچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیے ’جب نیب ترمیمی بل پاس ہو رہا تھا اس وقت تحریک انصاف کہاں تھی؟ ملک کے 35 فیصد ووٹرز نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور آپ نے ان کی نمائندگی ترک کر دی۔‘
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ نیب ترامیمی پاس ہونے کے وقت پی ٹی آئی کہاں تھی؟ شاہ محمود نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں ہماری عدم موجودگی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ پہلے کی بات کر رہے ہیں جبکہ ہم تحریک عدم اعتماد کے بعد کی بات کر رہے ہیں۔ آپ ہمارا سوال نہیں سمجھ رہے۔ ہم نوٹس جاری کر رہے ہیں لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر معاملات پر بچث ہونی چاہیے۔ آئندہ سماعت پر قریشی صاحب آپ بھی آئیں دوسرے طرف سے بھی لوگ بلائیں گے۔‘
’معاملہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے‘
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بڑی محنت کی ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جنہوں نے ترامیم کی ہیں انھوں نے بھی بڑی محنت کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ کچھ دن پہلے وزیر قانون نے مجھے بتایا کہ ہر ترمیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟‘
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ’نہیں ایسا نہیں ہے، ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم تو ہیں لیکن ان کے مطابق نہیں، نیب قانون میں موجودہ ترامیم کر کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے۔ ‘
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ’حیران کن طور پر عجلت میں نیب ترامیم ہوئیں۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’کیا یہ قانون سازوں کا کام نہیں تھا کہ نیب قانون بنائیں۔ عدالتوں نے متعدد بار کہا کہ نیب قوانین بنائیں، کیا قانون سازوں کو ان کا استحقاق استعمال کرنے نہیں دینا چاہیے؟ پارلیمنٹ کل قرار دے کہ قتل جرم نہیں ہے تو کیا ایسا ہونے دیا جائے؟‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ سزائے موت ختم کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔ جہاں کرپشن اور قومی خزانے کا معاملہ ہو وہاں بات بنیادی حقوق کی آتی ہے۔ اسی وجہ سے استدعا کی ہے کہ اس قانون کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دینا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ ’بتائیں کہ نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا۔ نیب ترامیم میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کی اجازت نہیں دی گئی۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’زیادہ کیسز اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے ہوتے ہیں۔ ترمیم کے بعد کسی کو فائدہ پہنچانے پر کیس نہیں بنے گا۔ جب تک اختیار استعمال کرنے والا خود فائدہ نہ لے کیس نہیں بن سکے گا۔
’ہر حکومت اپنی اپوزیشن کے خلاف نیب کو استعمال کرتی ہے‘
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’سرکار کا کام آگے بڑھنا چاہیے۔ نیب کے قانون نے بہت سے معاملات میں رکاوٹ بھی پیدا کی ہے۔ خاص طور پر بیوروکریسی پر نیب قانون کا بڑا اثر پڑا ہے۔ مخصوص فرد کے لیے بنے قانون کو عدالت کالعدم کر سکتی ہے۔ ماضی میں مخصوص افراد کے لیے ہونے والی قانون سازی عدالت کالعدم قرار دے چکی۔ کرپشن کرنے والے کو سزا ہونی چاہیے نہ کہ اس کا کیا گیا کوئی ضروری فیصلہ ہی واپس ہو جائے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’کیا نیب نے آج تک ملکی ترقی میں کردار ادا کیا ہے یا فیصلہ سازی کو روکا ہے؟ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ نیب سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے یا نہیں۔ ہر حکومت اپنی اپوزیشن کے خلاف نیب کو استعمال کرتی ہے۔ فیصلہ ساز ملکی مفاد میں فیصلے کرنے سے اس لیے ڈرتے تھے کہ نیب نہ پکڑ لے۔
’نیب قانون نے ہمیں پیچھے بھی دھکیلا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ان سب قوانین کو بغور دیکھیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ترامیم پارلیمنٹ نے کی ہیں۔‘
اس کے جواب میں خواجہ حارث کا کہنا تھا ’نیب قوانین غلط نہیں ہیں بلکہ جن لوگوں نے انھیں سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا وہ غلط ہیں۔‘
اپوزیشن کہاں تھی؟
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر ایک سوال ہے کہ جب یہ قانون سازی ہو رہی تھی تو اپوزیشن کہاں تھی؟ شاہ محمود قریشی یہاں موجود ہیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ’قریشی صاحب جب پارلیمنٹ میں حساس معاملات پر قانون سازی ہوئی آپ کی جماعت کیوں نہیں تھی؟
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ’کیا پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنا اپنا کام نہیں کرنا چاہیے؟ جب نیب قانون پاس ہو رہا تھا پی ٹی آئی کہاں تھی؟ پی ٹی آئی نے اسمبلی کو ترک کر دیا۔ ملک و آئین کی خاطر سوچیں۔ اتنی بڑی جماعت اسمبلی میں نہیں تھی، پھر کہتے ہیں قانون خلاف قانون بن گئے۔‘
محمود قریشی نے کہا کہ ’جب زاہد حامد وزیر قانون تھے تب بھی ہم نے ترامیم کی کوشش کی، کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے۔ جب ہماری حکومت تھی تب فیٹف قانون سازی کے وقت اپوزیشن 35 ترامیم لے آئی۔ اس سے یہ قانون غیر موثر ہو جاتا تھا۔‘
مختصر حکم نامہ اور عارضی ریلیف پر بحث
سماعت کے اختتام پر عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں عمران خان کی درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا کہ وہ اس معاملے میں عدالت کی معاونت کریں۔ درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے نکات لکھوانے کے بعد چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں ایم این اے لکھوایا اور مسکرا دیے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی بھی مسکراتے رہے۔
عدالت کی جانب سے نیب قوانین میں ترامیم کے نتیجے میں کسی بھی فرد کو پہنچنے والے فائدے سے روکنے کے لیے حکم نامہ لکھوانا شروع کیا تو سرکاری وکیل عامر عبدالرحمان نے کہا کہ ابھی تک تو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی دلائل نہیں ہوئے اس لیے عدالت عارضی ریلیف کے حوالے سے حکم نامہ جاری نہ کرے۔ اس دوران چیف جسٹس نے ساتھی ججوں کے ساتھ متعدد مرتبہ مشاورت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن عارضی ریلیف کے حق میں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ مخالف تھے۔ جس پر چیف جسٹس نے عارضی ریلیف کے حوالے سے حکم نامہ میں مزید کچھ لکھوانے کے بجائے سماعت جمعرات 28 جولائی تک ملتوی کر دی۔