Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام بمقابلہ ایوان، جیت کس کی؟ ماریہ میمن کا کالم

پنجاب کی وزارت اعلٰی کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے (فوٹو: اے پی)
گذشتہ کالم عوام اور عوامی رائے کے احترام کے بارے میں تھا۔ ضمنی الیکشن کا نتیجہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا جس کو (ن) لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں نے کھلے عام تسلیم کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس سے سبق حاصل کرتیں اور سبق بھی بالکل واضح تھا۔
وہ سیاسی جماعت جس کا عوام سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے اور جو عوام کو اپنے ایجنڈے پر متاثر کر سکتی ہے اس کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے اور اس مینڈیٹ کے مطابق حکومت کرنے کا حق بھی ہونا چاہیے۔
حالیہ انتخابات میں عوام نے یہ حق پی ٹی آئی کو دیا اور الیکشن کمپین اور نتائج کو سب نے دیکھا بھی اور تسلیم بھی کیا۔ تمام حلقوں اور عوام کو یہی توقع تھی کہ ووٹ کے اصول پر سیاست کرنے والی جماعتیں عوام کے مینڈیٹ پر عمل کریں گی۔ 
زبانی کلامی تو تمام جماعتیں ہی اس اصول سے اتفاق کرتی ہیں مگر جب بات عمل کی طرف آتی ہے تو پھر سارے اصول ہوا ہو جاتے ہیں۔
ایوان کی سیاست عوام کی سیاست سے دور نکل جاتی ہے۔ ڈرائنگ رومز اور پس پردہ ایوانوں میں اکثریت اور اقلیت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایوان مذاق بن کے رہ جاتے ہیں۔ ایوان میں بات اختلافات سے جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ کہیں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے ہیں اور کہیں کھلے عام تشدد اور ہاتھا پائی ہوتی ہے۔
اتفاق نہ ہونے کی صورت میں یا بات سڑکوں پر آتی ہے اور یا پھر عدالت میں، ہر دو صورتوں میں عوام کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ آپس میں کدورتیں بڑھتی ہیں اور جمہوریت کی کشتی بھنور میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔

ایوان میں ہر پارٹی جوڑ توڑ کر کے عوام کے مینڈیٹ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے (فوٹو: اے پی پی)

پنجاب اسمبلی میں پچھلے ہفتے بھی یہی ہوا۔ ضمنی الیکشن اگرچہ صرف 20 نشستوں پر ہوئے مگر ان میں بھی درجن سے زیادہ اضلاع میں لاکھوں لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
ان تمام ووٹرز کو اور ووٹ مانگنے والی سیاسی جماعتوں کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہ انتخاب پنجاب میں اگلی حکومت کے لیے ہیں۔ تمام لیڈرز نے بھر پور مہم چلائی۔ ایک پارٹی کی طرف سے اندیشوں اور الزامات کے باوجود دھاندلی اور دباؤ کے واقعات نظر نہیں آئے۔ پولنگ بھی نسبتاً پرامن ہوئی اور عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ کا حق استعمال کیا۔ جب نتیجہ نکلا تو عوام نے اپنا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دیا۔
اگر یہی انتخاب 20 کے بجائے تین سو 20 نشستوں پر بھی ہوتا تو صورتحال کم و بیش یہی ہوتی، مگر جب معاملہ ایوان میں گیا تو پچھلی 20 سیٹوں کا معاملہ پیچھے رہ گیا اور نئی 10 سیٹوں کا معاملہ چھڑ گیا۔
وہ جماعت جس کے تمام ممبرز اپنے پارلیمانی لیڈر کے ساتھ ووٹ ڈالنے گئے ان کو بتایا گیا کہ وہ ووٹ شمار ہی نہیں ہوں گے۔ 20 حلقوں میں لاکھوں ووٹ ڈالے بھی گئے اور ہار جیت کا فیصلہ بھی ہو گیا مگر کچھ سو کے ایوان میں درجن بھر ووٹوں کا فیصلہ تنازع کا شکار ہو گیا۔ 
یہ معاملہ چونکہ سب سے اعلٰی عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے معزز عدالت ہی اس پر حتمی فیصلہ کرے گی۔

20 نشستوں کے مقابلے میں 10 سیٹوں کا معاملہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے (فوٹو: مسلم لیگ ق)

عوام کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایک پارٹی جس کی نمائندگی 10 ارکان پر مشتمل ہے اور وہ 10 ارکان ایک طرف ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں مگر ان کا ووٹ شمار نہیں ہوتا۔ عوام اور ایوان کی تشریح میں اتنا زیادہ فرق مشکل سے نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بھی اگر مذکورہ حکومت قائم نہ رہ سکی تو آخر اتنے متنازع فیصلے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر کسی طرح رہ بھی گئی تو ایسی حکومت کی کیا حیثیت ہو گی؟
دوسری طرف کے موقف پر بھی غور کرنا چاہیے۔ فلور کراسنگ پر آئین کی شق کی حالیہ تشریح ان کا ایک قانونی جواز ہے۔ پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کی طرف سے عدم اعتماد پر دی گئی رولنگ ان کا سیاسی جواز ہے۔
قانونی جواز کا فیصلہ تو عدالت عظمٰی کی طرف سے ہو جائے گا۔ سیاسی جواز عوام کی عدالت میں ہے۔ ایک تیسرا جواز بھی سامنے آیا ہے۔ اس کا تعلق ماضی کے فیصلوں سے ہے۔ دوبارہ غیرمنصفانہ اور عدم برابری کے سلوک کی بات ہو رہی ہے۔ غالباً اس جواز کی ٹائمنگ میں کچھ تاخیر ہو گئی۔
جب حکومت لی گئی اور اس کے ساتھ اپنے سیاسی مخالف کے کئی سابق حلیفوں کو بھی شامل کر کے ایک انتظام بنایا گیا تو پھر دوبارہ مظلومیت کا بیانیہ شاید عوام میں قبولیت حاصل نہ کر سکے۔ اس لیے حکومت کے لیے قانونی اور سیاسی مسائل کم ہوتے ہوئے کسی طور نظر نہیں آتے۔

پنجاب کے 20 حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے واضح اکثریت حاصل کی (فوٹو: اے ایف پی)

اب بھی وقت ہے، ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو عوام کی رائے کو اہمیت دینا ہو گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ اور ماضی کی غلطیوں کی ذمہ داری کسی ایک جماعت یا گروہ پر عائد نہیں ہو سکتی۔ ہر پارٹی نے اپنی ضرورت کے حساب سے ایوان میں جوڑ توڑ کر کے عوام کے مینڈیٹ کو اپنے مفاد کے لیے بدلنے کی کبھی کامیاب اور کبھی ناکام کوشش کی ہے۔
ان نا خوشگوار کوششوں کا نتیجہ ہی آج نظر آ رہا ہے۔ اگر مزید ایسی کوششیں جاری رہیں تو نہ صرف عوام کا جمہوریت سے اعتماد مزید متاثر ہو گا بلکہ سیاست بھی اس بند گلی میں داخل ہو جائے گی جس میں نقصان کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہو گا۔

شیئر: