حکومتی اتحادیوں اور پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پٹیشن میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سماعت ایک ساتھ کرنے کی استدعا کی جائے گی۔
مزید پڑھیں
-
اتحادی حکومت کے 100 دن مکمل، غیر یقینی کی صورتحال برقرارNode ID: 686451
اتوار کو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جے یو آئی (ف) نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔ اور اس سلسلے میں حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین پیر کی صبح ساڑھے 10 بجے مشترکہ پریس کانفرنس میں اہم اعلان کریں گے۔
بیان کے مطابق اتحادی جماعتوں اور پی ڈی ایم کے قائدین اپنے وکلاء کے ہمراہ مشترکہ طور پر سپریم کورٹ جائیں گے۔ ایم کیوایم، اے این پی، بی این پی، باپ سمیت دیگر اتحادی جماعتیں بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ تمام جماعتوں کے وکلا سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیں گے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی نزاکت ایسی ہے کہ اس کو فُل کورٹ کے سامنے رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے عدالتی فیصلے کے بعد تاحال ابہام موجود ہے۔ ’ایک ہی معاملے میں دو تشریحات نہیں کی جا سکتیں۔‘
وزیر قانون نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کے لیے ایک قانون ہو جبکہ شجاعت حسین کے لیے دوسرا قانون ہو۔
جمعے کو پنجاب اسمبلی میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے جبکہ حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے تھے. تاہم ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے چوہدری شجاعت کے خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد کر دیئے جس کے بعد پرویز الٰہی کے ووٹوں کی تعداد 176 جبکہ حمزہ شہباز کے ووٹوں کی تعداد 179 ہو گئی۔
![](/sites/default/files/pictures/July/36476/2022/supreme_court_6.jpg)