آصف زرداری کی سیاست نے ایک بار پھر سب کو حیران کرتے ہوئے پنجاب میں بازی پلٹ دی (فوٹو: اے پی)
سترہ جولائی کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی 15 سیٹوں پر بھرپور کامیابی کے بعد عام تاثر یہی تھا کہ پنجاب کی وزارت اعلٰی کا تاج چودھری پرویز الٰہی کے سر پر سجے گا کیونکہ انہیں موجودہ وزیراعلٰی حمزہ شہباز پر واضح عددی اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔
تاہم 19 جولائی کو لاہور میں شکست خوردہ حکومتی اتحاد کے اجلاس کے بعد جب پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری کی کار فراٹے بھرتی ہوئی مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت کے گھر کی طرف روانہ ہوئی تو سیاسی پنڈت حیران تھے کہ پاکستانی ’سیاست کے گرو‘ آصف زرداری اس صورت حال میں کون سی چال چلیں گے جو حمزہ شہباز کو صاف نظر آتی شکست سے بچا سکے۔
سیاست ممکنات کا کھیل ہے تو آصف زرداری اس کے کہنہ مشق کھلاڑی بلکہ کنگ میکر ہیں۔ ان کا وار کم ہی خالی جاتا ہے۔ انہوں نے چودھری شجاعت کے گھر سے نکلتے ہوئے وکٹری کا نشان بھی بنایا جس پر تجزیہ کاروں نے تبصرے کیے کہ شاید انہیں شجاعت حیسن کی حمایت مل جائے۔
اس بار پی ٹی آئی کیمپ پُرامید تھا کہ آصف زرداری بھی اس بار کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ایسے میں چوہدری شجاعت کا ایک مبینہ بیان بھی سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے ارکان کو چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت کریں گے جس نے عمران خان اور ساتھیوں کے اعتماد میں مزید اضافہ کیا۔
یہاں قابل ذکر بات یہ کہ اس سب کے باوجود آصف زرداری کی ملاقاتوں کا سلسلہ نہ رکا اور پھر انہوں نے جمعرات کو چودھری شجاعت حسین سے دو ملاقاتیں کیں جن میں سے ایک (ملاقات) پانچ گھنٹے طویل تھی۔
اس ملاقات کی جو تصویر سوشل میڈیا پر جاری کی گئی اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں بزرگ سیاست دان مذاکرات کرتے کرتے اتنے تھک گئے کہ آرام دہ صوفوں پر نیم دراز ہوگئے۔
پھر جمعے کو وزارت اعلٰی کے لیے ووٹنگ سے قبل ایک بار پھر آصف زرداری کی چودھری شجاعت سے ملاقات ہوئی اور وہ خبر سامنے آئی کہ جس نے سیاسی منظر نامہ ہی الٹ دیا۔
مقامی میڈیا نے خبر دی کہ چودھری شجاعت نے عمران خان کے امیدوار پرویز الٰہی کی حمایت سے انکار کردیا ہے اور اپنے پارٹی ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی کو ووٹ نہ دیں۔
مقامی میڈیا نے مونس الٰہی کے حوالے سے خبر دی کہ چودھری شجاعت حیسن سے ان کی ملاقات بے نتیجہ رہی اور وہ ان سے پرویز الٰہی کی حمایت میں ویڈیو پیغام لینے میں ناکام رہے۔
اس خبر کے بعد منظر نامہ بدل گیا اور پی ٹی آئی فتح سے محض چند قدم دوری پر ہی محروم رہ گئی کیونکہ آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق کوئی رکن اسمبلی اپنے پارٹی لیڈر کی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔
یوں آصف زرداری کی سیاست نے ایک بار پھر سب کو حیران کرتے ہوئے پنجاب میں بازی پلٹ دی اور حمزہ شہباز ہی ووٹنگ میں کامیاب ہوگئے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کا یہ نعرہ ایک بار پھر سچ ثابت ہوا کہ ’ایک زرداری سب پر بھاری۔‘
رواں سال اپریل میں سابق وزیراعظم عمران خان کا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تختہ الٹنے میں بھی سب سے اہم کردار آصف زرداری کا ہی تھا۔
شاید عمران خان اپنی حکومت کے جانے سے قبل بھی آصف زرداری کی سیاسی چالوں سے خائف رہے ہیں اسی لیے انہوں نے بطور وزیراعظم ایک جلسے میں بھی آصف زرداری کا نام لے کر کہا تھا کہ سابق صدر ان کی ’بندوق کے شست پر ہیں۔‘
تحریک عدم اعتماد سے ایک سال قبل مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں تھے مگر آصف زرادی شروع سے ہی عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہی نکالنے کی بات کر رہے تھے۔
پھر اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے نے ثابت کر دیا کہ آصف زرداری کی سیاسی پالیسی ہی کامیاب رہی اور ترپ کا پتہ کام آیا۔
یہ آصف زرداری ہی تھے جو عمران خان کے حامی ایم این ایز اور ان کے اتحادیوں کو اپنے حق میں توڑنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے بھی انہی نے استوار کیے پھر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو قائل کیا تھا۔
اس سے قبل مارچ 2018 میں آصف زرداری نے عمران خان کے ساتھ مل کر سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی شکست میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے اس وقت پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کے ساتھ مل کر اس وقت کی حکومت کو شکست دیتے ہوئے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ منتخب کرایا تھا۔
صادق سنجرانی کا نام ابتدائی طور پر وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے مشترکہ امیدوار کے طور سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی انھیں چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا گیا تھا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ آصف علی زرداری کے طرزِ سیاست نے 2008 کے انتخابات سے مذکورہ تبدیلی تک ملکی سیاسی نظام پر اپنے گہرے اثرات مُرتب کر رکھے ہیں اور حالیہ تبدیلییوں میں بھی اِن کا کردار سب پر ’بھاری‘ ہے۔
2008 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کی جماعت اے پی ڈی ایم کا حصہ بن کر انتخابات کو لاحاصل قرار دے کر بائیکاٹ کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔
ایسے میں آصف علی زرداری نے نواز شریف کو انتخابی عمل میں شرکت پر قائل کیا جس نے بعد میں مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب میں اقتدار کی راہ ہموار کی۔
اس کا تسلسل 2013 کے انتخابات میں مرکز میں بھی حکومت کے حصول میں مددگار ثابت ہوا تھا۔