نینسی پلوسی تائیوان کیوں گئیں اور اس پر چین برہم کیوں ہے؟
نینسی پلوسی تائیوان کیوں گئیں اور اس پر چین برہم کیوں ہے؟
بدھ 3 اگست 2022 7:56
امریکی نمائندہ کے دورہ تائیوان سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں مزید کشیدگی آئی ہے (فوٹو: اے پی)
امریکہ کے ایوان نمائندگی کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کی پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا ہے کہ تائیوان دنیا کے آزاد ترین معاشروں میں سے ایک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان معاشی شراکت داری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
منگل کو تائیوان پہنچنے پر نینسی پلوسی نے وہاں کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا جبکہ صدر سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
خیال رہے نینسی پلوسی چین کے تمام تر تحفظات و دھمکیوں کے باوجود تائیوان پہنچی ہیں، تاہم یہ سوال اہم ہے کہ آخر چین کو امریکی نمائندہ کے تائیوان جانے سے کیا مسئلہ ہے۔
نینسی پلوسی ڈھائی دہائیوں کے بعد پہلی اعلٰی امریکی عہدیدار ہیں جنہوں نے تائیوان کا دورہ کیا اور تائیوان کے حکام کی جانب سے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ہے۔
دوسری جانب چین تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے اور وہ غیرملکی سرکاری عہدیداروں کے دوروں کو ملکی معاملات میں مداخلت اور جزیرے کی خودمختاری تسلیم کیے جانے کی نظر سے دیکھتا ہے۔
پلوسی تائیوان کیوں گئیں؟
امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کئی دہائیوں سے جمہوری جدوجہد کی حمایت کے مشن پر کام کر رہی ہیں اور اسی مقصد کے تحت انہوں نے 1991 میں بیجنگ کے تیانانمن سکوائر کا دورہ بھی کیا تھا، جہاں انہوں نے دیگر قانون سازوں کے ہمراہ جمہوریت کی حمایت کے لیے ایک چھوٹا جھنڈا بھی لہرایا تھا۔
اس موقع پر چینی سکیورٹی افسران نے ان کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ بعدازاں چینی افواج نے مقامی جمہوریت کی اس تحریک کو کچل کر رکھ دیا تھا۔
نینسی پلوسی کے دورے کا مقصد امریکہ کے اس عزم کا اظہار ہے جس کے مطابق وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہونے اور مطلق العنان حکومتوں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔
امریکی نمائندہ اپنے دورے کو ایک ایسے وقت میں وسیع منظر میں پیش کر رہی ہیں، جب دنیا کو جمہوریت کی زیادہ ضرورت ہے۔
انہوں نے کچھ عرصہ پیشتر یوکرین کے دارالحکومت کیئف کا بھی دورہ کیا تھا۔
اپنے تائیوان کے دورے کے حوالے سے نینسی پلوسی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ’ہم کو تائیوان کے ساتھ ضرور کھڑا ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے امریکہ کے اس وعدے جو امریکہ نے 1979 کے قانون کے تحت اس کے ساتھ کیا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’یہ بہت ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی اس امر کو یقینی بنائیں کہ ہم مطلق العنان حکومت کے سامنے ہار نہیں مانتے۔‘
جمہوریت کی حمایت کی تحریک کے تحت نینسی پلوسی ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو ’آٹوکریسی یا جمہوریت میں سے کسی ایک کے انتخاب‘ کی صورت حال کا سامنا ہے، انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ یوکرین کا دورہ بھی کیا تھا۔
تائیوان کے حوالے سے امریکہ کا موقف
چین کے تحفظات کے جواب میں امریکی صدر جو بائیڈن کے بعد نینسی پلوسی نے بھی واضح کیا تھا کہ ان کی ’ایک چین پالیسی‘ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور تائیوان کے ساتھ غیررسمی اور دفاعی تعلقات بھی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔
چین اور تائیوان میں تنازع
تائیوان چین سے 1949 میں اس وقت الگ ہو گیا تھا جب وہاں خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی تاہم اس کے بعد بھی چین مسلسل اس دعوے کو دہراتا رہا ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے اور اس حد تک سخت موقف رکھتا ہے کہ وہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔
چین حالیہ برسوں کے دوران تائیوان پر فوجی اور سفارتی دباؤ بڑھاتا رہا ہے۔ اس نے 2016 میں اس وقت تائیوان سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے تھے جب صدر سائی انگ ون نے چین کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس میں ایک قوم کے طور پر رہنے کا کہا گیا تھا۔
اسی طرح بیجنگ امریکہ کے تائیوان سے تعلق کو اس لیے بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے نزدیک اس سے جزیرے کی دہائیوں پر محیط آزادی کی جدوجہد کی حوصلہ افزائی ہو گی حالانکہ امریکی حکام کہتے رہے ہیں کہ وہ اس کو سپورٹ نہیں کر رہے۔
چینی فوج کی حکمت عملی
نینسی پلوسی کے تائیوان پہنچتے ہی چینی فوج نے آپریشنز اور تربیتی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے جس کا مقصد اپنے ’مضبوط ارادوں اور اقدامات‘ کا اظہار کرنا ہے۔
چین کی فوج کا کہنا ہے کہ یہ مشقیں تائیوان کے قریب سمندر میں اور فضا میں ہوں گی جن میں آبنائے تائیوان میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے اسلحے کی فائرنگ بھی شامل ہے۔
چین کی زنوا نیوز ایجنسی کے مطابق فوج جمعرات سے اتوار تک کئی مقامات پر جنگی مشقوں کا آغاز شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری کی جانے والی تصویر میں جو علاقہ دکھایا گیا وہ تائیوان کے اردگرد پانیوں پر مشتمل ہے اور انہی میں جنگی مشقیں کی جائیں گی۔
دوسری جانب تائیوان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ چین نے 21 طیارے تائیوان کی طرف بھیجے ہیں جن میں سے 18 فائٹر جیٹس ہیں۔
امریکہ کا ردعمل
امریکی صدر نے نینسی پلوسی کے دورے پر بات کرتے ہوئے کسی حد تک احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت کی جانب سے فقط اتنا کہا گیا ہے کہ تائیوان جانے یا نہ جانے کا فیصلہ نینسی پلوسی کی مرضی پر منحصر تھا۔
اسی طرح نینسی پلوسی کے دورے سے قبل امریکی فوج نے انڈو پیسیفک خطے میں سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ حکام کے مطابق ملٹری آپریشنز کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کیا گیا ہے۔
جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے؟
امریکی و چینی صدور واضح کر چکے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے تاہم اس کے باوجود امریکی نمائندہ کے دورے کے بعد بننے والی صورت حال میں بھی چین کی جانب سے کسی اشتعال انگیز حربے کا امکان اس لیے کم ہے کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو طاقت ترین فوج رکھنے والے ملک امریکہ کی جانب سے بھی سخت جواب کی صورت میں جنگ چھڑنے کا خطرہ ہوگا۔
بیجنگ میں امریکی سفیر کی طلبی
علاوہ ازیں چینی حکومت نے نینسی پلوسی کے تائیوان کا دورہ کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے بیجنگ میں امریکہ کے سفیر نیکولس برنز کو وزارت خارجہ طلب کیا اور ان کی حکومت کے اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سرزنش بھی کی ہے۔