خیال رہے چین تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعوٰی رکھتا ہے۔
نینسی پلوسی ایشیا کے چار ممالک کے دورے پر ہیں اور پیر کو ان کی سنگاپور میں موجودگی کے دوران یہ افواہ پھیلی کہ وہ ممکنہ طور پر خودمختار تائیوان کا دورہ کر کے بیجنگ کی برہمی کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔
دوسری جانب ایسی افواہوں کے بعد نینسی پلوسی کے دفتر کی جانب سے اتوار کو وضاحت کی گئی تھی ان کے شیڈول میں سنگاپور، ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان شامل ہیں اور تائیوان کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجین نے نینسی پلوسی کے ممکنہ دورے کو چین کے اندرونی معاملات میں بڑی مداخلت قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ’اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔‘
’ہم امریکہ سے ایک بار پھر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چین تیار ہے، چین کے عوام اور فوج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے اور اپنی سالمیت کے لیے سنجیدی اقدامات اور بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کس قسم کے اقدامات کیے جائیں گے؟ تو زاؤ کا کہنا تھا
’اگر انہوں (پلوسی) نے وہاں جانے کی جرات کی، تو پھر ہمارا انتظار کریں کہ ہم کیا کرتے ہیں۔‘
چین کی جانب سے امریکی نمائندے کو تائیوان بھیجنے کو اس کی آزادی کی حامی کیمپ کی حوصلہ افزائی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
واشنگٹن کے تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم وہ امریکی قوانین کے مطابق پابند ہے کہ وہ تائیوان کے اپنے دفاع کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کرے۔
نینسی پلوسی یا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں زیربحث ہے جب امریکہ اور چین کے تعلقات ویسے ہی بہتر نہیں اور اس سے مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔
ریپلکن سے تعلق رکھنے والے نیوٹ گنریچ ایوان نمائندگان کے سپیکر نے 1997 میں تائیوان کا دورہ کیا تھا۔
جمعرات کو ایک ٹیلی فون کال میں چینی صدر شی جنپنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خبردار کیا تھا کہ امریکہ کو ’ایک چین‘ کے اصول کی پابندی کرنی چاہیے۔
’جو آگ سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ انہیں جلا کر بھسم کر دے گی۔‘