Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیانا کی موت کے 25 سال بعد ’تنازعات میں گھِرا‘ شاہی خاندان

لیڈی ڈیانا کی موت نے پوری دنیا کو افسردہ کر دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والی برطانوی شہزادی ڈیانا کی موت کے پچیس سال بعد شاہی خاندان کو ایک مرتبہ پھر عوام میں مقبولیت کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگرچہ گزشتہ چند سالوں میں شاہی محل نے عوام سے بہتر رابطے کے لیے سوشل میڈیا کو اپنایا اور ملکہ برطانیہ کی پلاٹینم جوبلی کے موقع پر شاندار تقریبات کا انعقاد کیا، تاہم حالیہ تنازعات نے ایک مرتبہ پھر شاہی خاندان کو متنازع کر دیا ہے۔
پچیس سال قبل 31 اگست 1997 کو ویلز کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی موت کی خبر نے جہاں پوری دینا کو افسردہ کر دیا تھا وہیں اس غم کے موقع پر شہزادہ چارلس اور ملکہ الزبتھ دوئم کی جانب سے سرد مہری نے برطانوی عوام میں برا تاثر چھوڑا تھا۔
بعد میں اپنے رویے  کو تسلیم کرتے ہوئے شاہی خاندان نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں ان تمام عوامل سے ہٹ کر ایک نیا باب شروع کرنا ہوگا جن سے ان کے عوامی تاثر کو نقصان پہنچا ہے۔
شہزادہ چارلس اور ڈیانا کی طلاق، شاہی خاندان میں جھگڑے اور دیگر سکینڈلز کی خبروں سے عوام میں شاہی محل کی ساکھ بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی۔
ملکہ الزبتھ دوئم نے عوام میں مقبولیت بحال کرنے کے لیے چند اقدامات بھی کیے. اس دوران شاہی خاندان کی کچھ اہم تقریبات بالخصوس شہزادہ ولیم اور کیتھرین مڈلٹن کی شادی نے بھی عوام میں ان کا تاثر مزید بہتر بنانے میں کردار ادا کیا۔
اپریل 2011 میں شہزادہ ولیم اور کیتھرین مڈلٹن کی شادی کو ’صدی کی شاہی شادی‘ قرار دیا گیا جس میں نہ صرف دنیا بھر سے معزز شخصیات نے شرکت کی بلکہ عوام میں بھی بے حد دلچسپی پائی گئی۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والی شادی کی شاندار تقریب کو ٹیلی ویژن پر لائیو دکھایا گیا تھا۔

شہزادہ ولیم اور کیتھرین مڈلٹن کی شادی کو ’صدی کی شاہی شادی‘ قرار دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

تاہم حالیہ تنازعات جن میں ملکہ برطانیہ کے دوسرے بیٹے شہزاہ اینڈریو کے ایک خاتون پر جنسی حملے کے الزامات اور پوتے شہزادہ ہیری اور اہلیہ میگھن مرکل کے شاہی فرائض سے دستبرداری نے ایک مرتبہ پھر شاہی محل کی عوام میں مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔
شاہی تاریخ دان ای ڈی اوونز کا کہنا ہے کہ ’ڈیانا کی موت ایک ایسا واقعہ تھی جس نے شاہی خاندان کو مجبور کیا کہ وہ عوامی تاثر کو تبدیل کریں اور خود کو وقت کے مطابق ڈھالتے ہوئے عوام کے سامنے خود کو زیادہ پرکشش بنائیں۔‘
شاہی خاندان میں موجودہ تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’آنے والے دن مشکل ہو سکتے ہیں۔‘
بکنگھم محل کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ انہوں نے اپنے میڈیا آپریشن میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں اور ایسے لوگوں کو ٹیم میں شامل کیا جنہوں نے شاہی خاندان اور عوام کے درمیان رابطے کی مضبوطی کے لیے نئے انداز اپنائے۔
ملکہ الزبتھ دوئم کے عوام میں تاثر کو بھی تبدیل کر کے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ملکہ برطانیہ ایک خصوصی حیثیت ضرور رکھتی ہیں لیکن وہ باقی لوگوں کی طرح ایک عام انسان ہی ہیں۔ اس سے قبل برطانوی عوام میں ان کا یہ تاثر جاتا تھا کہ انہیں رعایا کے مقابلے میں اپنے کتوں اور گھوڑوں کا زیادہ خیال ہے۔

میگھن مرکل نے شاہی خاندان پر ’نسل پرستی‘ کا الزام عائد کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

شاہی محل سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ شہزادہ چارلس کے پبلک امیج کو بھی تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جن کا عوام میں تاثر ایک ایک مغرور شخص کا تھا۔
تاریخ دان ای ڈی اوونز کے خیال میں میگھن مرکل اور شہزادہ ہیری کے شاہی خاندان سے علیحدگی اور امریکہ منتقلی سے خلا پیدا ہو گیا ہے جو صرف پبلک ریلشننگ مہم کے ذریعے نہیں پر کیا جا سکتا۔
ای ڈی اونز کا کہنا ہے کہ لیڈی ڈیانا کی طرح میگھن مرکل بھی عام لوگوں کے لیے جذبات اور احساسات رکھنے والی شخصیت ہیں۔
گزشتہ سال اپریل میں شاہی خاندان پر نسل پرستی کا الزام لگاتے ہوئے میگھن مرکل نے کہا تھا کہ شاہی خاندان کی جانب سے انہیں تحفظ نہیں ملا۔

شیئر: