نادرا افغان شہریوں کے شناختی کارڈ بنانے کے مسئلے سے کیسے نمٹ رہا ہے؟
نادرا افغان شہریوں کے شناختی کارڈ بنانے کے مسئلے سے کیسے نمٹ رہا ہے؟
جمعہ 26 اگست 2022 11:00
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
نادرا حکام کا کہنا ہے کہ اب شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کسی بھی ایک خونی رشتے دار کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ فائل فوٹو
پاکستان کی وزارت داخلہ نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران متعدد افغان باشندوں نے جعلی دستاویزات جمع کراتے ہوئے نادرا سے شناختی کارڈ بنوا لیے تھے۔ نشاندہی ہونے کے بعد 181 افغان شہریوں کے شناختی منسوخ کر دیے گئے۔
وزارت داخلہ کے مطابق شناختی کارڈ بنانے والے آٹھ ہزار 152 افراد کی شہریت کی تصدیق کی تحقیقات جاری ہیں۔
اردو نیوز کو دستیاب سینیٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق نادرا نے گزشتہ تین سال میں اپنے ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کی اور افغان شہریوں کی شناختی کارڈ کے اجراء میں معاونت پر 43 ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا۔
رپورٹ کے مطابق ’نادرا کا کام پاکستانی شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرنا ہے اور ملک میں بڑی تعداد میں غیر ملکی افراد کے قیام کی وجہ سے نادرا کو بہت محتاط ہو کر کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود نادرا کے ملازمین کی ملی بھگت سے کچھ افغان شہری جعلی شناختی کارڈ بنوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ تین سال میں ایسے ملازمین خلاف 279 انکوائریاں شروع کی گئی ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق نظام میں موجود ان خامیوں کو ختم کرنے کے لیے نادرا نے کچھ اقدامات کیے ہیں جس کے بعد غیر ملکیوں کے لیے شناختی کارڈ بنوانے کا راستہ بند ہو جائے گا۔
اس حوالے سے نادرا حکام کا کہنا ہے کہ اب شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کسی بھی ایک خونی رشتے دار کا ساتھ ہونا اور اس کا سینٹر کے اندر ہی بائیو میٹرک کروانا لازمی ہے۔ جس میں والدین، بیٹا، بیٹی یا بہن بھائی کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی پہلا کونی رشتہ موجود نہیں تو پھر چچا، پھپھو، ماموں خالہ یا کسی کزن کا ہونا لازمی ہے۔
ریکارڈ کے لیے تعلیمی سرٹیفیکیٹ اور ڈومیسائل کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی جبکہ فیملی ٹری کی تصدیق اور اس مقصد کے لیے انٹرویو بھی کیا جائے گا۔ اس دوران اگر کسی قسم کا شبہ پایا گیا تو کیس تصدیقی بورڈ یا تصدیق کرنے والی ایجنسی کو بھیج دیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ نادرا نے اپنے نظام کو بہتر بنانے کے نئے قواعد بھی متعارف کرائے ہیں جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کے 2016 سے لاگو تصدیق کے نظام کو ختم کر دیا گیا ہے۔
اب کسی بھی مجاز افسر کو اس کے تصدیق کیے گئے دستاویزات کی مزید تصدیق کے لیے ایس ایم ایس بھیجا جائے گا۔ جس کی تصدیق کے بعد ہی کاغذات تسلیم کیے جائیں گے۔ پہلی بار شناختی کارڈ بنوانے کی صورت میں خاندان کے سربراہ کو ایم ایم ایس بھیجا جائے گا۔ اگر متعلقہ فرد اس کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ہوگا تو وہ نادرا کو آگاہ کر سکیں گے۔ علاقائی زبان و لب و لہجہ بھی چیک کیا جا سکے گا۔ کسی بھی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے متعلقہ یونین کونسل سے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کا حصول یقینی بنایا گیا ہے اور یونین کونسل کے نظام کو نادرا کے ریکارڈ سے لنک منسلک کر دیا گیا ہے جس سے معلوم ہو سکے گا کہ بچے کے والدین کا تعلق متعلقہ یونین کونسل سے ہے یا نہیں۔
نادرا نے اپنے نظام میں نئے ایس او پیز بھی متعارف کرائے ہیں جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر نئے شناختی کارڈ کے لیے آنے والی درخواستوں کا فرداً فرداً جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس سے نادرا کو جعلی اور مشکوک درخواستوں کو جانچنے میں مدد مل رہی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی جعلی اور مشکوک درخواست کی اطلاع فوری طور پر انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی کو دی جاتی ہے۔ اگر یہ ایجنسیاں اس معاملے میں کسی نادرا ملازم کی نشاندہی کریں تو ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جا رہی ہے۔
نادرا نے ’پراسرار صارف‘ کی اصطلاح بھی متعارف کروائی ہے جس کے تحت خفیہ طریقے سے کسی بھی مشکوک شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی جاتی ہیں اور کلیئرنس نہ ہونے کی صورت میں کیس متعلقہ ایجنسیوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔