Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’استعفیٰ دے کر چلے جاؤ‘، علی امین گنڈاپور کی وی سی گومل یونیورسٹی کو مبینہ دھمکی

علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ حالات مزید نہ بگڑ جائیں، اس لیے انہوں نے یونیورسٹی معاملات میں مداخلت کی ہے۔‘ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی امین گنڈاپور کی جانب سے وائس چانسلر گومل یونیورسٹی کو واٹس ایپ پر مبینہ دھمکی آمیز میسج کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد نے چانسلر یونیورسٹی اور قائم مقام گورنر مشتاق غنی کو خط ارسال کیا ہے جس میں علی امین گنڈاپور کی جانب سے انہیں دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر افتخار احمد کے مطابق ’سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے مجھے دھمکی آمیز واٹس ایپ میسجز بھیجے ہیں اور استعفٰی دینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ اگر آپ کو اپنی عزت عزیز ہے تو استعفٰی دے کر چلے جائیں ورنہ انجام برا ہو گا۔‘
وی سی گومل یونیورسٹی نے الزام عائد کیا کہ ’سابق وفاقی وزیر نے ان سے کہا کہ آپ نے دو سالوں میں یونیورسٹی کا نظام خراب کر دیا ہے، آپ کے بارے میں جو سنا تھا آج وہ سچ ثابت ہوا۔‘
انہوں نے چانسلر کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ ’علی امین گنڈاپور نے میسج میں کہا کہ اپ آرام سے چلے جائیں ورنہ میں نے اگر طلبا تحریک کو سپورٹ کرنا شروع کیا تو پھر تمھارے لیے برا ہو گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسا کروں مجھے تمھارا رویہ مجبور کر رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ ڈھائی سال قبل صوبائی حکومت نے گومل یونیورسٹی کی اراضی پر زرعی یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس کی مخالفت کرنے پر سابق گورنر نے وائس چانسلر کو جبری رخصتی پر بھیج دیا تھا۔
 وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد نے حکومتی اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ صوبائی کابینہ اور سینٹ (تمام جامعات کے حوالے سے مشترکہ اجلاس) میں متفقہ فیصلوں کے باوجود انہوں نے اراضی دینے اور اثاثوں کی تقسیم پر رضامند نہیں کی، جس کی وجہ سے علی امین گنڈا پور ان کی مخالفت میں سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر افتخار احمد نے خط میں الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی رہنما نے احتجاجی طلبا کو کل کھانے پر دعوت دی اور پھر ان کو دھرنے کے لیے ساؤنڈ سسٹم بھی فراہم کیا۔
انہوں نے قائم مقائم گورنر کے نام اپنے خط میں مزید کہا کہ ’علی امین گنڈاپور سے مجھے اور میری فیملی کو خطرہ ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے آپ مجھے ہدایت دیں۔‘
اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ چانسلر کو صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے تاہم وہ کسی بھی دباؤ میں آ کر استعفٰی نہیں دیں گے۔
’میں حق پر ہوں اور کسی سیاسی شخص کی دھمکی میں نہیں آؤں گا۔ مجھ پر کرپشن کے جھوٹے الزامات لگا کر طلبہ کو میرے خلاف کھڑا کیا گیا ہے۔ جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘
وائس چانسلر کے مراسلے کا جواب دیتے ہوئے گورنر سیکریٹریٹ نے وائس چانسلر گومل یونیورسٹی کو اثاثوں کی تقسیم سے متعلق تین روز کے اندر پراگریس رپورٹ چانسلر آفس جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے۔

دوسری جانب متحدہ طلبہ محاذ کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے سے یونیورسٹی میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔
طلبہ نے کلاسز کا بائیکاٹ کر کے دھرنا دیا ہوا ہے۔ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نعمت اللہ وزیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہمارا حق ہے مگر ’وی سی نے آواز دبانے کے لیے ہمارے اوپر 16 ایم پی او کے تحت مقدمات درج کروائے۔‘
نعمت اللہ وزیر نے بتایا کہ ان سمیت 150 طالب علموں کے خلاف احتجاج کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’یونیورسٹی میں کرپشن کا بازار گرم ہے زیادہ تر ڈیپارٹمنٹ ایچ ای سی سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس کا فنڈ وائس چانسلر غائب کر چکے ہیں۔ طلبہ جب سوال کرتے ہیں تو انہیں دبا دیا جاتا ہے۔ وی سی کے حکم پر ہمارے کچھ طلبہ پر تشدد بھی ہوا۔‘
پولیس کے مطابق وائس چانسلر اور انتظامیہ کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر پر طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ ان تقاریر سے جامعہ کے اندر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑ رہی تھی۔
طلبہ کے اوپر 16 ایم پی او، 148، 149، 153 اور دفعہ 506 کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں۔
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے ڈی آئی خان میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ’گومل یونیورسٹی کی صورتحال سے باخبر ہیں اور ہمیں تشویش ہے کہ حالات مزید نہ بگڑ جائیں، اس لیے انہوں نے یونیورسٹی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ کرپشن کرنے والوں کا راستہ روکیں گے۔‘

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ میں نے قائم مقام گورنر سے بات کی ہے بہت جلد اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔ صوبائی کابینہ اور سینیٹ کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں گومل یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی کے مابین اثاثوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہے مگر ’وی سی رکاوٹ بن رہے ہیں۔‘
’ہم نہیں چاہتے کہ طلبہ کی پڑھائی ضائع ہو، کسی ایک شخص کی وجہ سے اس یونیورسٹی کو بدنام نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اس یونیورسٹی کو ماڈل بنانا چاہتے ہیں۔‘
دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ نے امن و امان کی صورتحال کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا ہے۔ احتجاجی طلبہ کے مطالبات سننے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

شیئر: