Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغاوت پر اُکسانے کا مقدمہ، عدالت کا شہباز گِل کو رہا کرنے کا حکم

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بغاوت پر اُکسانے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی درخواست ضمانت پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
عدالت میں شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہباز گِل کے خلاف کیس بدنیتی اور سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ شہباز گِل سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔ ان کے بیان میں آرمڈ فورسز کو ٹارگٹ ہی نہیں کیا گیا۔
ملزم شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پورا کیس ایک تقریر کے گرد گھومتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہباز گِل کا بیان غیر ذمہ دارانہ، غیر مناسب اور ہتک آمیز تھا۔
چیف جسٹس نے پولیس پراسیکیوٹر سے سوالات کیے کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا کہ شہباز گِل نے کسی سپاہی سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا؟ کیا آرمڈ فورسز کی جانب سے کبھی شکایت درج کرائی گئی؟ کیا آرمڈ فورسز کسی لاپرواہ بیان سے متاثر ہو سکتی ہیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بغاوت کے کیس کو یہ عدالت نہیں مانتی۔
چیف جسٹس نے استفسار نے کیا کہ کیا ایف آئی آر میں لکھی ہوئی باتیں شہباز گل نے کہیں تھیں؟ ’کیا آپ آرمڈ فورسز کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیان کو جسٹیفائی کر سکتے ہیں؟‘
30 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گِل کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہباز گل کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔ فوٹو: اردو نیوز

بغاوت پر اُکسانے کے مقدمے میں اپنے تفصیلی فیصلے میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کہا تھا کہ بادی النظر میں شہباز گِل ناقابل ضمانت جرم کرنے کے مرتکب ہوئے۔
عدالت نے کہا تھا کہ ’شہباز گِل کا بیان عوامی مفاد میں ہے نہ ہی ملکی سالمیت کے حق میں۔‘

شیئر: