Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جیل بھیجنے کا حکم

دو جسمانی ریمانڈ مکممل ہونے پر شہباز گل کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا (فوٹو: سوشل میڈیا)
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو مزید جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو بدھ کے روز دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر سخت سکیورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں ہوئی جس میں پولیس کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی جبکہ شہباز گل کی جانب سے ان کے وکیل فیصل چوہدری پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو سپیشل پراسیکیوٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل سے تفتیش مکمل نہیں ہوئی اور ان کا پولی گرافک ٹیسٹ ہونا باقی ہے۔
اس موقع پر شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا مبینہ تشدد کی انکوائری رپورٹ سے متعلق فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے بتایا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے جس کو چھپایا گیا اور عدالت نے جوڈیشل انکوائری کا حکم دے رکھا ہے۔
فیصل چوہدری کے مطابق پولیس شہباز گل سے فون برآمد کر چکی ہے اب انہوں نے مزید کتنے فون چاہییں۔ انہوں نے انٹرویو لینڈ لائن نمبر سے دیا تھا۔
پبلک پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ جو ریمانڈ پہلے ملا اس کی پیش رفت سامنے ہے اور ایک اور مقدمہ درج ہوا۔
پچھلے 48 گھنٹوں کے ریمانڈ کے دوران موبائل فون، چار یو ایس بیز برآمد کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ انٹرویو بنی گالہ کے لینڈ لائن نمبر سے دیا گیا جبکہ ان کو پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے لاہور بھی لے کر جانا ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ دیا جائے۔
سماعت کے دوران جوڈیشل میجسٹریٹ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تشدد کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔
ان کے مطابق ’تشدد ہوا یا نہیں یہ فیصلہ انکوائری افسر نے کرنا ہے، جسمانی ریمانڈ دینے سے انکوائری کا کیا تعلق ہے۔‘
جس پر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ جسمانی ریمانڈ سے اس کا کوئی تعلق نہیں، تشدد ہوا یا نہیں یہ طے ہونا ابھی باقی ہے۔
دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے جسمانی ریمانڈ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جس کو تھوڑی دیر بعد ہی سنا دیا گیا۔

شیئر: