Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں مہسا امینی کی دورانِ حراست ہلاکت پر غم وغصے میں اضافہ

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد تحقیقات کا حکم دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر ایران میں گرفتار ہونے والی خاتون کی پولیس کی حراست میں ہلاکت سے ایران میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان کے جنازے کے موقع پر شدید احتجاج سامنے آیا ہے جبکہ ٹوئٹر پر خاتون کا نام ٹاپ ٹرینڈ ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کو پولیس نے پچھلے ہفتے کے آغاز میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد وہ حراست میں ہی کومہ میں چلی گئی تھیں، جس سے ایران میں خواتین کی صورت حال کھل کر سامنے آئی تھی۔
امینی کی موت کے بعد ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی آڑ میں خواتین کے خلاف کارووائیوں کو روکنے کے مطالبات ایک بار پھر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
کردستان میں خاتون کے جنازے اور تدفین کو ایران کے تقریباً تمام ہی اخبارات نے پہلے صفحات پر جگہ دی ہے۔
ایران سے تعلق رکھنے والے اشاعتی ادارے اعتماد کا کہنا ہے کہ ’ایران کے لوگ صدمے میں اور اس بات پر سخت غصے میں ہیں کہ مہسا امینی کے ساتھ آخر کیا ہوا ہے؟‘
سقر کے علاقے میں کچھ لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومتی دفاتر پر پتھراؤ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
اتوار کو شائع ہونے والے اخبارات نے مہسا امینی کے حوالے سے مختلف سرخیاں جمائی ہیں جن میں سے ایشیا نامی اخبار نے لکھا ’ڈیئر مہسا، آپ کا نام ایک علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔‘
اسی طرح ایک اور اخبار نے پہلے صفحے پر لکھا کہ ’قوم مہسا کی موت پر دکھ کا اظہار کر رہی ہے۔‘
شمال مشرقی صوبے کردستان سے تعلق رکھنے والی امینی اپنی فیملی کے ساتھ تہران آئی تھی جہاں پر ان کو منگل کو گرفتار کیا گیا تھا۔
گرفتاری کے بعد مختلف شہروں میں احتجاج بھی ہوئے اور پچھلے ہفتے کے دوران منظرعام پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ تہران یونیورسٹی کے باہر جمع ہیں اور خواتین کی زندگی اور آزادی کے حوالے سے نعرے لگا رہے ہیں۔

ایران کے تقریباً تمام ہی اخبارات نے مہسا امینی کے جنازے کی خبر پہلے صفحات پر شائع کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح ٹوئٹر پر مہسا امینی ہیش ٹیگ ایک کروڑ 63 لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔
اسی طرح سنیچر کو بھی کردستان میں حکومت کے خلاف احتجاج ہوا کہ امینی کے آبائی علاقے سقز میں بھی ان کے جنازے کے موقع پر احتجاج ہوتا رہا۔
مختلف لوگوں کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تشدد کر رہی ہے جن میں سے ایک ایسا شخص بھی دکھائی دے رہا ہے جس کے سر پر چوٹ لگی ہے۔
اسی طرح سقز میں گورنر کے دفتر پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور حکام کے خلاف نعرے لگائے گئے۔
سقز سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی کا کہنا ہے کہ جنازے کے موقع پر چند افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق ’ان میں سے ایک کو ہسپتال لے جایا گیا ہے جس کو بال بیرنگز لگنے سے سخت چوٹ لگی تھی۔‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والا کردش گروپ ہنگوا کا کہنا ہے کہ سقز میں 33 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
خیال رہے ایران میں پولیس ڈریس کوڈ کی پابندی کرانے کی ذمہ دار ہے، جس کو اختیارات سے تجاوز پر پہلے بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت کے اخبارات نے احتجاج کرنے والوں پر الزام عائد کیا ہے کہ ’وہ ایک سانحے کو حکومت اور صدر کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔‘
کیہان نامی ایک قدامت پرست اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا کی موت کے بعد احتجاج کرنے والوں کی جو تعداد بتائی گئی وہ جھوٹ پر مبنی تھی۔
خیال رہے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے پچھلے 17 ستمبر کو خاتون کو ہلاکت کے بعد تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

شیئر: