انسانی حقوق کے ادارے (ہرانہ) نے کہا تھا کہ گرفتاری کے بعد لکھاری اور آرٹسٹ سیپدہ رشنو کو انٹرنل بلیڈنگ کی شکایت کے بعد ہسپتال لے جایا گیا۔
15 اگست کو صدر ابراہیم رئیسی کی حکومت نے خواتین کے لیے حجاب اور حیا سے متعلق قواعدوضوابط کو مزید سخت کر دیا تھا اور پابندیوں کی ایک نئی فہرست جاری کی۔
انسانی حقوق کے ادارے ہرانہ نے کہا ہے کہ قواعدوضوبط کی خلاف ورزی پر پانچ خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا اور چار کو جبری اعترافی بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔
ہرانہ کے مطابق حجاب اور لباس سے متعلق ضوابط کی خلاف ورزی پر 1700 افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طلب کیا۔
گرفتاری کے بعد سپیدہ رشنو کو سرکاری ٹیلی ویژن پر لایا گیا۔ انہوں نے نئے قواعدوضوابط کے تحت سکارف پہنا ہوا تھا۔ اس موقعے پر انہوں نے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر معافی بھی مانگی۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق کہ جب سپیدہ رشنو ٹی وی نمودار ہوئی تو ان کے ’آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے‘ بنے تھے اور وہ بیمار نظر آئیں۔
ہرانہ کے ایک سینیئر رکن سکائی لار تھامسن نے کہا کہ ’’ان کے چہرے پر مارپیٹ کے واضح نشانات تھے۔ یہ واضح ہے کہ نفسیاتی تشدد اور اعتراف جرم پر مجبور کرنے کے علاوہ ان کو مارا پیٹا گیا۔‘‘
سکائی لار تھامسن نے مزید کہا کہ ’’مبصرین نے خواتین کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ دیکھا ہے جو ہم نے کچھ عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔ اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ناانصافیاں ایران میں احتساب کے فقدان کی ایک اور مثال ہے۔‘‘
سپیدہ رشنو اب بھی حراست میں ہیں۔ خواتین تہران میں پلے کارڈز اٹھائے ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں کہ ’سپیدہ رشنو کہاں ہیں؟‘
سکاٹ لینڈ کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کی سیاسی امور کے ماہر پروفیسر علی انصاری نے دی گارڈین کو بتایا کہ حجاب قوانین کو سخت کرنا ایران میں ایک ’وسیع پیمانے پر منظم جبر‘ کا حصہ ہے اور یہ رجحان ریئسی کی حکومت میں مزید خراب ہو گیا ہے۔