Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نواز شریف مصیبت سے نکل پائیں گے؟

اپوزیشن جماعتوں کی تحریک اگر عوامی مقبولیت پکڑ گئی تو افراتفری پھیل سکتی ہے، فوج کا کردار بہت اہم ہو گا
* * * صلاح الدین حیدر* * *
سوال اہم ہے، اس لئے کہ کہنے کو تو نواز شریف سپریم کورٹ کا کیس جیت گئے۔ 3-2 کا اکثریتی فیصلہ قانونی طور پر اُن کے حق میں گیا۔ وہ وزیراعظم کے عہدے پر بدستور موجود رہیں گے لیکن اخلاقی طور پر اُنہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس کی صدائے بلند بلاتکلف سنی جاسکتی ہے۔ مبصرین کی بہت بڑی تعداد اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی دِکھائی دیتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) ہرزہ سرائی میں بدستور مصروف ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو مریم اورنگزیب، طلال چوہدری، دانیال عزیز اور کسی حد تک طارق فضل چوہدری (جو وفاقی وزیر ہیں) صبح شام ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہیں کہ عمران خان خود اپنے گریبان میں جھانکیں، اُن کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ سوال کچھ جواب کچھ۔ عمران خان نے تم پر انتہائی شرم ناک الزامات لگائے ہیں۔کرپشن کا، منی لانڈرنگ کا اور پھر جہاں سپریم کورٹ کے 2ججوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر کردیا کہ وہ اتنے اعلیٰ منصب پر رہنے کے اہل نہیں ، وہیں باقی 3 ججوں نے (جنہوں نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا تھا) بھی اس بات پر قائم ہیں کہ مسلم لیگ کے سربراہ نے بہت سے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ مثلاً اُن کی جائیداد لندن اور دبئی میں کیسے بنی، پیسہ کہاں سے آیا، بچوں نے اُدھار دیا تو اُن کا ذریعہ آمدنی کیا تھا، 1990ء میں یہ پیسہ پاکستان سے قطر کیسے گیا اور پھر سعودی عرب میں اُن کی لگائی ہوئی اسٹیل مل کب اور کتنے پیسوں میں فروخت ہوئی۔دبئی میں قائم کی جانے والی گلف اسٹیل مل کہاں سے وجود میں آئی؟
یہی وہ سوالات تھے جن کی وجہ سے باقی 3ججوں کو بھی بحالتِ مجبوری یہ سوال اُٹھانا پڑا کہ ان اہم معاملات پر سنجیدگی سے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے اور سب نے مل کر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جسے عرف عام میں’’ جے آئی ٹی‘‘ کہتے ہیں، بناڈالی، آئندہ چند روز میں اُسکے نام آجائیں گے اور پھر سپریم کورٹ خود ہی اُنہیں 60 روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرچکی ہے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر جے آئی ٹی کو حکم دیا گیا کہ وہ ہر 15روز بعد اپنی رپورٹ یا تفتیش سے5رُکنی بنچ کو آگاہ رکھے۔ یہاں تک تو مخالفین فیصلے سے خوش نہیں نظر آتے تھے لیکن اب وہ سارے کے سارے انگشت بدنداں ہیں کہ فوج نے اپنے بھرپور اجلاس کے بعد اس بات کا اعلان کردیا کہ فوج کے لوگ، جیسے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے جو نامزد کئے جائیں گے وہ قانونی اور آئینی آداب کے تابع ہوں گے۔مطلب یہ کہ حکومت کو صاف طور پر یہ جتادیا گیاہے کہ فوج سویلین انتظامیہ کے تابع نہیں ہوگی۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ یہ بڑی غور و فکر کے بعد سنایا گیا۔ فوج کے سارے جونیئر افسران (جنہیں عمومی طور پر کور کمانڈر کہا جاتا ہے) نے اجلاس میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر پوری طرح سے نظر ڈالی اور اپنا فیصلہ ملٹری کے پبلسٹی ونگ (آئی ایس پی آر) کے ذریعے عوام تک پہنچادیا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر فوج کو کیا پڑی تھی کہ وہ ملکی سیاسی حالات پر سوچ بچار کرے۔ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ وزراء یا وزیر بننے کے خواہشمند افراد کچھ بھی رہے ہوں، اُنہیں نواز لیگ کی انڈر19 ٹیم سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ دانیال عزیز مشرف کابینہ میں وزیر تھے، وہاں وہ مشرف کے گن گاتے تھے، جن کے نام سے ہی نواز شریف کو شدید نفرت ہے، تو پھر اصول کہاں گئے، وہ کیسے نواز شریف کے ہم نوا بن گئے اور اُن کی قربت کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ صبح شام سب اچھا ہے کی رَٹ لگانے والے ہر ملک اور حکومت میں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں۔ فوج کے اعلان کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ عام تاثر یہ ہے، فوج کو بھی نواز شریف کے طرز حکومت سے اختلاف ہے۔فوج سیاست سے علیحدہ رہنا چاہتی ہے اور 2008 کے بعد سے اب تک اُس پر سختی سے عمل پیرا ہے لیکن عمران خان نے 28 اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ عام کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف مختلف الخیال اپوزیشن پارٹیاں جن میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، (ق) لیگ اور اُسکے رہنما چوہدری شجاعت حسین سب ہی نواز حکومت کیخلاف تحریک چلانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ عمران نے ایک بار پھر سولو فلائٹ کا فیصلہ کیا اور زرداری کی پیشکش کہ مل جُل کر گو نواز گو کی تحریک کو آگے بڑھایا جائے، سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کچھ کے قریب یہ عمران کی غلطی ہے لیکن میرے نزدیک اُنہوں نے ہمیشہ ہی تن تنہا جنگ لڑی ہے، ٹھوکریں بھی کھائی ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو جیت اُنہی کی ہوئی ہے۔ یہ عمران ہی تھے، جنہوں نے نواز شریف کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا اور نواز عوام کے سامنے ایک معمّہ بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی زرداری پر لگنے والے الزامات کی وجہ سے ہمیشہ ہی عوام کے سامنے متنازع رہے گی۔ لوگوں کو زرداری پر اعتماد نہیں تو اس کا اظہار پچھلے کئی ہفتوں سے مختلف اشکال میں ہوتا رہا ہے۔ زرداری اور بلاول پنجاب میں جلسے کررہے ہیں، خیبرپختونخوا کے شہر مردان اور وسطی پنجاب کے شہر جھنگ میں بھی جلسہ کیا لیکن عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکے۔ اصل لڑائی اور اگر تحریکی پس منظر کی نظر سے دیکھا جائے تو پانی پت کی طرح آئندہ انتخابات بھی پنجاب میں ہی لڑے جائیں گے، پیپلز پارٹی وہاں اپنا بوریا بستر لپیٹ چکی ہے، بلاول اور زرداری اُس کی مقبولیت یا شہرت بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
نواز شریف کو اُن سے تو کوئی خطرہ نہیں لیکن عمران اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔ عوامی رائے عام طور پر اُنہیں صاف ستھرا، ایمان دار سیاست دان مانتی ہے اور اُنہیں ووٹ دینے کیلئے بھی تیار ہے لیکن نواز شریف نے اپنے قلعے کی دیواروں کو اتنا بلند کردیا ہے کہ اُسے آسانی سے گرانا ممکن نہیں لگتا۔ پھر بھی مکافاتِ عمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔تاریخ اپنا رُخ خود تجویز کرتی ہے۔ فطرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ ان تمام باتوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو نواز شریف خاصی تکلیف میں نظر آتے ہیں، اُن کی شہرت پر بے شمار دھبے دِکھائی دیتے ہیں، دامن تار تار ہے، اُنہیں بھی انتخابات میں مشکلات کا سامنا صاف نظر آرہا ہے۔ وہ منصب اعلیٰ پر براجمان رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں، زبردستی اقتدار پر قابض رہیں تو کوئی کیا بگاڑ لے گا لیکن میں پھر یہاں مکافات عمل کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔قدرت اپنا کھیل خود ہی کھیلتی ہے، اُسے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ 2018 ء کے انتخابات اب بہت اہم ہوگئے ہیں۔ عوام النّاس کی نظروں میں نواز شریف کی وہ مقبولیت نہیں جو پہلے تھی، وہ متنازعہ بن چکے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اُنہیں پہلے سے زیادہ زور لگانا پڑے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی تحریک اگر عوامی مقبولیت پکڑ گئی تو ملک میں افراتفری ہوجائیگی، انتظامیہ مفلوج ہوجائیگی اور پھر جو خلا پیدا ہوگا تو اُسے کوئی تو پُر کریگا۔ فوج کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ جو جمہوریت کا راگ تو الاپتی ہے لیکن سیاسی حالات سے غافل بھی نہیں۔ میں یہ سوال یہیں چھوڑتا ہوں،کہ آنے والے دن اور ہفتے ہی اس کا جواب مہیا کریں گے۔ ہم بس تماشائے اہل کرم ہی دیکھنے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور خود بھی وقت کا انتظار کریں گے۔ اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ کیا ملکی تاریخ بدل جائیگی یا بدلنے والی ہے، اس کا فیصلہ تو تاریخ خود ہی کریگی۔ دیکھیں آنے والے دن کیا نقشہ پیش کرتے ہیں۔عدالتی فیصلے کے بعد ججوں پر بھی انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ پاکستانی نظام ِعدل میں مقدمۂ سماعت کے دوران تبصرے کی اجازت نہیں، لیکن فیصلہ پر تنقید تو ہوسکتی ہے۔ عوام اور اخبارات (جن میں لاہور کا ایک بہت موقر اخبار بھی شامل ہے) نے عجیب و غریب کہانی شائع کی ہے، ہم اس سے اجتناب کرتے ہوئے اُن کی تفاصیل میں نہیں جاتے لیکن سعادت حسن منٹو کے ایک قول پر انحصار ضرور ہے۔منٹو جو اپنی تنقید کیلئے اپنا ثانی نہیں رکھتے، کہا تھا کہ ’’دُنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب خانے میں شراب پی کر بولا جاتا ہے، دُنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بولا جاتا ہے۔‘‘ کس کو کون سا پلاٹ اور کب الاٹ کیا گیا، کس نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا یا نہیں، اس بحث میں ہم پڑے بغیر صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ عدالتی احترام ہم سب پر لازم ہے لیکن منصفانِ قوم بھی اپنا دامن اور ایمان بچا لیں تو بہتر ہوگا۔

شیئر: