Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اشتعال انگیز اقدامات‘، جی سیون کا روس پر نئی پابندیاں لگانے کا عندیہ

زیلنسکی نے مطالبہ کیا کہ روس کو حملے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کا پابند بھی بنایا جائے (فوٹو: روئٹرز)
جی سیون کے وزرائے خارجہ نے روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ماسکو پر ’معاشی اور سیاسی دباؤ برقرار رکھنے‘ کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گروپ سیون کے وزرا کی جانب سے بدھ کی رات جاری بیان میں اضافی فوج کی تعیناتی اور جوہری حملے سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کی گئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جی سیون مزید پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم ذاتی اور شعبہ جاتی دونوں طرح کی نئی پابندیوں کے اقدامات کا جائزہ لیں گے اور انہیں اپنائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایک رسمی اجلاس میں حتمی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کینیڈا، امریکہ، فرانس، جرمنی اٹلی، جاپان اور برطانیہ کے جی سیون وزرا نے روس کے زیرقنضہ علاقوں میں ریفرنڈم کرانے کے اعلان کی بھی مذمت کی۔
انہوں نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین کے جوہری پلانٹ زیپوریژا کا کنٹرول یوکرین کے حوالے کر دے۔

ولادیمیر زیلنسکی کا اقوام متحدہ سے روس کو ’سزا‘ دینے کا مطالبہ

دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ روس کو یوکرین پر حملے کے لیے سزا دی جائے جس میں مالی جرمانے اور ماسکو سے سلامتی کونسل میں اس کے ویٹو پاور کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کی قیادت کو مخاطب کرنے والا صدر زیلنسکی کا یہ ریکارڈڈ خطاب بدھ کو روسی صدر کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے یوکرین میں فوج کو مزید متحرک کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی تھی۔
خیال رہے ماسکو کی جانب سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ اس فوج میں تین لاکھ کے قریب مزید اہلکار بھرتی کیے جائیں۔
صدر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کی قیادت سے کہا کہ ’یوکرین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور ہم فوری طور پر (روس کے لیے) سزا چاہتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری ریاست کے خلاف جارحانہ انداز اپنانے پر روس کے خلاف اقوام متحدہ ایک خصوصی ٹربیونل بنائے جو روس کو نقصانات کی تلافی کا پابند کرے جبکہ سلامتی کونسل کے ممبر کے طور پر اس کا ویٹو کا اختیار بھی ختم کرے۔‘

روسی صدر پوتن نے بدھ کو جنگ میں مزید فوجی شامل کرنے کا اعلان کیا تھا (فوتو: روئٹرز)

یاد رہے کہ بدھ کو روسی صدر پوتن نے احکامات جاری کیے تھے کہ مزید تین لاکھ فوجیوں کو جنگ میں شامل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ’اگر مغرب نے تنازع پر اپنی ’جوہری بلیک میلنگ‘ دکھائی تو ماسکو اپنے تمام وسیع ہتھیاروں کی طاقت سے جواب دے گا۔ ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’روس کے پاس جواب دینے کے لیے بہت سے ہتھیار موجود ہیں۔‘
اسی طرح روسی صدر نے یوکرین کے ماسکو کے زیرِ قبضہ علاقوں میں اچانک ریفرنڈم کرانے کا بھی اعلان کیا۔
اس سے ایک روز قبل منگل کو یوکرین کے ماسکو کے زیر قبضہ علاقوں میں علیحدگی پسند حکام نے روس کے ساتھ الحاق پر فوری ووٹنگ کا اعلان کیا تھا۔
واشنگٹن، برلن اور پیرس نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بین الاقوامی برادری کبھی بھی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی۔
روس کے وزیر دفاع سرگئی شائیگو کا کہنا ہے کہ نئے فوجی کا کام فرنٹ لائن کو مضبوط بنانا ہو گا جو ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔
دوسری جانب مغربی فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے فوجیوں کے لیے تربیت کی ضرورت ہو گی جس میں مہینوں کا وقت لگے گا۔

پوتن کے اعلان پر احتجاج

روس میں قید اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی نے صدر کے اعلان کے خلاف پڑے پیمانے پر مظاہرے کرنے کی کال دی ہے۔
احتجاجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے آزاد گروپ او وی ڈی انفو کا کہنا ہے کہ صدر پوتن نے نئے اقدام کے خلاف احتجاج پر ایک ہزار تین سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک بار پھر روسی صدر نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔‘
اسی طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی روسی صدر کے ارادوں کو قابل مذمت قرار دیا ہے۔

شیئر: