Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مالاکنڈ میں شدت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا ایکشن پلان تیار؟

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے مالاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات سے نمٹنے اور شدت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے حکومت نے ایکشن پلان تیار کر لیا ہے۔
صوبائی وزیر محنت و ثقافت شوکت یوسفزئی نے اردو نیوز سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے سکیورٹی کے حالات بگڑ رہے تھے جن کے لیے اب صوبائی حکومت اور سکیورٹی فورسز نے حکمت عملی ترتیب دے دی ہے۔
انہوں نے کہا ’سکیورٹی کے مسائل ہیں لیکن ہم ٹی وی پر نہیں بتا سکتے۔ مجھے اتنا علم نہیں لیکن انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر کارروائی ہوگی۔ اب مجھے لگتا ہے کہ حالات جلدی ٹھیک ہو جائیں گے کیونکہ آج کی صورتحال 2010 کی طرح خراب نہیں ہے۔‘
صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے مزید کہا کہ ’ہم کسی صورت کو عوام کو ان عناصر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے بالکل  کارروائی ہوگی اور جو کارروائی ہورہی ہے وہ تسلی بخش ہے۔‘
’وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کی خواہش ہے کہ مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن ان عناصر سے پاک ہوں کیونکہ یہ علاقے ہمارے سیاحتی مقامات ہیں یہاں بد امنی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘
خیبر پختونخوا پولیس کے ایک آفیسر نے اردو نیوز کو ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کی تصدیق کی ہے۔ ان کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن ضلع سوات، دیر اور بونیر کے کچھ علاقوں میں کی جائے گی۔
ضلع لوئر دیر سے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلٰی کے مشیر برائے جیل خانہ جات شفیع اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ آپریشن کے بارے میں سنا ضرور ہے لیکن ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا کہ کب اور کہاں ہوگا۔
’ایم پی اے ملک لیاقت پر قاتلانہ حملے کے بعد حالات بگڑ گئے ہیں اس لیے ٹارگٹڈ آپریشن ضرور ہونا چاہیے۔‘

لوئر دیر میں عوام کی بڑی تعداد نے دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ فوٹو: ٹوئٹر

ضلع اپر دیر کے ایم پی اے صاحبزادہ ثنااللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری سرحدی علاقوں کی طرف تعینات کرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ کلین اپ آپریشن ضروری ہے کیونکہ مٹھی بھر دہشت گردوں کی وجہ سے سب خوف میں مبتلا ہیں۔‘
واضح رہے کہ مالاکنڈ کے اضلاع میں اگست کے مہینے سے حالات بگڑنا شروع ہوئے تھے۔ سب سے پہلے 6 اگست کو ضلع دیر سے تحریک انصاف کے ایم پی اے ملک لیاقت پر حملہ ہوا جس میں ان کے بھائی سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ سوات کے ڈی ایس پی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے کا تھا۔
13 اگست کو سوات کے علاقے برہ بانڈئی میں امن کمیٹی کے رہنما کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول سے بم دھماکہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ سوات کبل سے نجی کمپنی کے ملازمین کواغوا کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔
جمعرات کی رات کو بھی سرچ آپریشن کے دوران سوات کے علاقے سنگوٹہ میں نامعلوم افراد اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک مبینہ حملہ آور ہلاک کر دیا گیا جو کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کو مطلوب تھا۔

شیئر: