پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں گذشتہ روز ایک ہی دن دہشت گردی کے تین واقعات رونما ہوئے جس میں نو افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔
منگل کو سوات کبل برہ بانڈئی میں آئی ای ڈی دھماکے سے امن کمیٹی کے سربراہ کو نشانہ بنایا گیا جس پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ پاک افغان بارڈر پر خرلاچی، ضلع کرم میں بھی سرحد پار فائرنگ سے پاکستانی فوج کے تین جوان مارے گئے۔
مزید پڑھیں
-
’سوات میں مسلح افراد کی موجودگی سے باخبر، صورتحال کنٹرول میں‘Node ID: 692201
-
سوات میں ٹی ٹی پی کی مبینہ واپسی: کون کیا کہہ رہا ہے؟Node ID: 693231
-
کالعدم ٹی ٹی پی کا سیز فائر معاہدہ ختم کرنے کا اعلانNode ID: 697931
اس کے علاوہ ضلع کوہاٹ میں بلی ٹنگ کے علاقے میں دستی بم حملے سے ایک پولیس ایس ایچ او سمیت 7 اہلکار زخمی ہوئے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کا آبائی علاقہ دہشت گردوں نے نشانے پر کیوں؟
ضلع سوات کی تحصیل مٹہ سے اغوا برائے تاوان کا واقعہ بھی رپورٹ ہوا ہے۔
ڈی پی او سوات زاہد مروت کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی موبائل سروس کمپنی کے سات ملازمین اغوا کر لیے گئے۔ ملازمین کو رہا کرنے کے بدلے 10 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے تاہم رات کو پانچ ملازمین کو رہا کردیا گیا جبکہ دو ملازم تاحال اغواکاروں کے پاس ہیں۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا اسمبلی کے اپوزیشن رکن اور مسلم لیگ ن کے رہنما سردار خان کو بھتے کی کال موصول ہوئی جس کا مقدمہ خوازہ خیلہ پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایم پی اے نثار مہمند نے بھی بھتے کی دھمکیوں سے پریشان ہو کر اسمبلی میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سوات کے مقامی صحافی انور انجم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت سوات میں خوف کی فضا ہے۔ کچھ دن قبل وزیراعلیٰ کے آبائی حلقے سے ایک شہری کو ایک کروڑ روپے تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ حالات ایک دم تبدیل ہو رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے واضح موقف بھی سامنے نہیں آ رہا۔ اب تک کن افراد کے خلاف کارروائی ہوئی ہے یا کررہے ہیں یہ رپورٹ سامنے آنی چاہیے۔‘
دوسری جانب سوات میں سکیورٹی کی موجودہ صورتحال پر سول سوسائٹیز اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سوات کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں موجودہ حالات پر گہرے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

ادھر سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے گذشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے ذریعے سوات میں امن وامان کی صورتحال پر سوال اٹھائے ہیں۔
مراد سعید نے کہا کہ ’حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ سوات میں لوگوں کو بھتے کے لیے فون کالز آرہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان میں ہونے والے مذاکرات میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آخر یہ مذاکرات کون کررہا ہے۔‘
’افغانستان میں جاری مذاکرات سے صوبائی حکومت کا کوئی تعلق نہیں‘
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مراد سعید کے بیان کے بارے میں انہی سے سوال پوچھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ہم کا لفظ کس تناظر میں استعمال کررہے ہیں ۔‘
بیرسٹر سیف نے بتایا کہ ’مذاکرات کرنا صوبائی حکومت کا کام نہیں۔ ریاست پاکستان کی جانب افغانستان میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ آئین اور قانون کی رو سے اس کا صوبائی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میں ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے مذاکرات کا حصہ ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کل کے واقعات افسوس ناک ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جوابی کارروائیاں جاری ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں سے حساس اداروں کی رپورٹ ملتی ہے وہاں ٹارگٹڈ آپریشن ہورہا ہے۔‘
