Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ کھلاڑی ، کھلواڑی‘‘

ہم ہانڈی میں نمک کی کمی برداشت کر لیں گےمگر محاوروں میں اکھاڑ اور کہاوتوں میں کسی بھی قسم کی پچھاڑہم ایک لمحے کیلئے برداشت نہیں کر سکتے
شہزاد اعظم
ہمارے اجدادنے زبان دانی میں ایسے ایسے کمالات دکھائے کہ آج تک ان کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکی۔ ہم نے اس کا سبب جاننے کی کوشش کی تو عقدہ یہ کھلا کہ جس دور میں اردو کی ولادت ہوئی ، وہ نہ توترقی یافتہ تھا اور نہ ترقی پذیر۔ اُس دور میں بجلی ہی ایجاد نہیں ہوپائی تھی چنانچہ انٹرنیٹ تھا نہ ٹیلی فون، موبائل تھا نہ گرامو فون،ٹیلی وژن تھا ، نہ نیوکلیئر فیوژن،ریڈیو ایجاد ہوا تھا، نہ وڈیو، اُس وقت کیمرہ ہوتا تھا اور نہ ہی ’’پیمرا‘‘چنانچہ لوگ اپنے دفاتر اور دیگر مقامات پر محنت مزدوری کر کے جب واپس لوٹتے تو گھر میں باتوں کے سوا کرنے کیلئے کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔
بیوی جب میاں کو دن بھر کی مصروفیات کے حوالے سے آگاہ کرتی تو خاوند محترم نہ صرف اس کی باتیں سنتے بلکہ اس کے الفاظ ، تلفظ،جملے کی ساخت،صوتی زیر و بم اور بیان کا دم خم، خوب اچھی طرح پرکھتے اور جہاں کہیں انہیں سقم دکھائی یا سنائی دیتا، فوراً مداخلت کرکے بیگم کو ٹوکتے اور انتباہ کرتے کہ ’’ہم ہانڈی میں نمک کی کمی برداشت کر لیں گے،لباس پر دھبے کی شکل میں چکنائی جمی برداشت کر لیں گے، روٹی کے کناروں پر بھاپ کی نمی برداشت کر لیں گے،بات بے بات ہما ہمی برداشت کر لیں گے مگر ریختہ کے تلفظ میں کوئی بگاڑ، محاوروں میں اکھاڑ اور کہاوتوں میں کسی بھی قسم کی پچھاڑہم ایک لمحے کیلئے برداشت نہیں کر سکتے ۔‘‘اُس دور کے شوہر ِ نامدار تو اپنی اہلیہ کو یہ دھمکی بھی دے ڈالتے تھے کہ’’ اگرآپ نے اردو کے ساتھ ایسی کوئی اونچ نیچ کرنے کی کوشش کی تو ہم آپ کو طلاق دینے سے بھی نہیں کترائیں گے۔ ‘‘ ماہرینِ سماجیات کا کہنا ہے کہ ان سیکڑوں سال قبل کے نامدار شوہروں، خاوندوں، میاؤں، خصموں اور سرتاجوں کی مہربانی سے ہی آج ہم اردو بولنے، سننے، لکھنے اور سمجھنے کے قابل ہیں کیونکہ اُنہی کا دور تھا جب اُردو بحیثیت زبان پروان چڑھ رہی تھی، نئے نئے لفظوں کی تکوین ہو رہی تھی، ایک سے ایک اچھوتے اور بامعنی محاورے جنم لے رہے تھے، لغتِ ریختہ میں مختلف کہاوتوں کی ’’دراندازی‘‘ کا سلسلہ جاری تھا۔ زبان کی شیرینی اور وسیع دامنی میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔یوں ماضی میں صرف اُردو زبان ترقی کر رہی تھی اور باقی تمام شعبہ جاتِ حیات میں گویا جمود طاری تھاجبکہ آج زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور اُردو زبان پر نہ صرف جمود طاری ہے بلکہ اس کو بگاڑنے، اکھاڑنے اور پچھاڑنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جا رہی۔
ہمارے اجدادِ ریختہ نے واقعی مافوق الفطرت فطانت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے زبانِ اُردو کو لفظوں کی تونگری عطا کی۔ ہم تو ان کی عظمت کے’’ جان ، دل، جگر اور گردے‘‘ سے قائل ہیں۔ یہاں ایک نذیر پیش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے ایک لفظی ترکیب ’’کھیل کود‘‘کا استعمال کیا ہے۔ یہاں صرف کھیل سے بھی کام چلایاجا سکتا تھا مگر ا نہوں نے اردو بولنے اور سننے والے کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کی کوشش بھی کی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’بانیانِ اُردو‘‘ نے کھیل کے ساتھ کود کا استعمال اسلئے کیاتاکہ علم ہو سکے کہ ’’ کھیل‘‘اور ’’کود‘‘2الگ الگ حرکتیں ہیں۔ کسی بھی کھیل میں کودنا شامل ہو سکتا ہے مگر ہر ’’کود‘‘،’’ کھیل‘‘ نہیں ہوسکتی ۔اگر کوئی شخص مقابلے کے دوران لمبی یا اونچی چھلانگ لگاتا ہے تو یہ کودنا کھیل میں شامل ہوگااور اگر کوئی شخص اونچی عمارت سے ’’کود‘‘ کر خود کشی کرتا ہے تو یہ حرام عمل ’’کود‘‘ میں تو شامل ہوگا مگر کھیل نہیں کہلا سکے گا۔ سماجیات کے’’ ماہرین‘‘ نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے باور کرایا کہ کرکٹ، ہاکی، اسنوکر، کشتی رانی، سائیکلنگ، گلی ڈنڈا، بیس بال، باسکٹ بال، ، ہینڈ بال، تھروبال، فٹ بال ، لوڈو، چھپن چھپائی، کوکلا چھپاتی، برف پانی، بندر کلا، گھڑ دوڑ، گدھا گاڑی ریس، بیل گاڑی ریس اورمُکے بازی وغیرہ سب کھیل کہلاتے ہیں جبکہ ان میں کمال رکھنے والے ’’کھلاڑی‘‘ قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح بلندی سے چھلانگ مارنا،لمبی چھلانگ لگانا،اونچائی پر نصب بانس کو عبور کرنے کیلئے کچلانگ لگانااور رسی ٹاپنا، یہ سب ’’کود‘‘ کہلاتے ہیں اور اس ’’کود‘‘ میں کمال کے حامل مرد و زن ’’کُداڑی‘‘ کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ کھیل اور کود کے علاوہ ایک اور قسم کی ’’غیر نصابی سرگرمی‘‘ بھی تیسری دنیا اور خصوصاً پاکستان جیسے غریب ملکوں میں عام ہے ۔ اسے زبان داں خواتین و حضرات نے ’’کھلواڑ‘‘کے زمرے میں شامل فرمایا ہے۔
انہوں نے اسکی وضاحت یوں پیش کی ہے کہ دوسرے کو اذیت دینے اور اپنے دل کو خوش کرنے کیلئے کسی بھی کھیل کا ستیا ناس کرنے، بنی بنائی بات بگاڑنے یا رنگ میں بھنگ ڈالنے کو ’’کھلواڑ‘‘کہا جاتا ہے اور اس میں کمال رکھنے والے کو ’’کھلواڑی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ عام طور پر ’’کھلواڑی‘‘ عوام کے جذبات اور احساسات سے کھیلتا ہے، لوگوں کی انا اور خودداری پامال کرتا ہے ، انہیں مسائل و مشکلات کا شکار کرتا ہے ، ان کے حقوق غصب کرکے ،انہیں گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کرکے سکون محسوس کرتا ہے۔ ماہرینِ سماجیات نے ایک انتہائی اہم اور حیرت انگیز عقدہ وا کرتے ہوئے’’ کھلاڑی اور کھلواڑی‘‘ میں فرق واضح کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کھلاڑی عموماً وہ ہوتا ہے جوکسی میدان، ہال یا کسی دیگر خاص مقام پر اپنا فن، کرتب یا تماشادکھاتا ہے اور لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ گویا کھلاڑی خود ’’تماشا‘‘ ہوتا ہے اور اسے دیکھنے کیلئے آنے و الے تماشائی کہلاتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں ’’کھلواڑی‘‘وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو تماشا بناکرخود تماشائی بن جاتا ہے۔ مجبور و بے کس انسانوں کو مبتلائے اذیت کر کے لطف اندوز ہوتا ہے اور انہیں ترستے، سسکتے، تڑپتے، روتے، پیٹتے دیکھ کراپنی انا ، رعونت اور خود غرضی کو سکون پہنچاتا ہے۔ ہم زیر نظر تحریر کی تکمیل میں محو تھے، اسی دوران موبائل فون کی گھنٹی بجی، بغور دیکھا تو یہ ہمارے ایک پرانے ساتھی کا فون تھا۔
ایک عرصے کے بعد انہوں نے فون کیا تھا چنانچہ گفتگو ذرا طویل ہوگئی۔ہم واپس کمرے میں لوٹے تو دیکھا کہ ہمارے بھانجے صاحب ہمارے اس کالم کو پڑھ رہے تھے۔ ہم نے یوں ہی کہہ دیا کہ ’’ارے میاں بھانجے! کیا پڑھ رہے ہو، یہ آپ کی سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ۔یہ سن کر بھانجے میاں نے کہا کہ ماموں! میں بتادوں کہ آپ نے کیا لکھا، کس کے بارے میں لکھا؟سچ یہ ہے کہ آپ نے کھلاڑی اور کھلواڑی کے بارے میں جو گفتگو کی ہے وہ یہی ظاہر کر رہی ہے کہ یہ ’’غربائے پاکستان‘‘ اور ’’بااختیار صاحبان‘‘کے درمیان پائے جانے والے تفاوت کی وضاحت ہے۔وطن عزیز کے مجبور و بے کس عوام ’’تماشا‘‘ بنے ہوئے ہیں اور ’’کھلواڑی‘‘ فی ا لوقت ’’تماشائی ‘‘ بنے اپنی انا کی تشفی کا سامان کر رہے ہیں۔ ماموں! صرف ایک لمحے کیلئے تصور کیجئے کہ اگر ’’تماشا اور تماشائی ‘‘دونوں کی جگہیں بدل گئیں تو کیا ہوگا؟

شیئر: