شادی کے بعد نور محمد انہیں لے کر پاکستان آ گئے اور یہاں لاہور کے علاقے بلال گنج میں رہنے لگے۔ ان کے ساتھ ان کے پہلے خاوند سے بیٹے محمد آصف بھی پاکستان آ گئے اور یہیں مقیم ہو گئے۔
نورمحمد سے انارکلی کی اولاد میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جو شادی کے بعد اپنے گھروں میں آباد ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے نور محمد کا بھی انتقال ہو گیا جس کے بعد انار کلی اب اپنی پہلی شادی سے ہونے والے بیٹے محمد آصف کے سہارے پر ہیں، جو ایک پراسرار بیماری کا شکار ہو کر نابینا ہو چکے ہیں اور زیادہ کام کاج نہیں کر سکتے۔
محمد آصف کی اہلیہ پیدائشی طور پر ایک ٹانگ سے معذور ہیں اور ان کی چند ماہ کی ایک بیٹی بھی ہے۔
گھر کا خرچ چلانے کے لیے واحد کفیل محمد آصف سڑک پر ماسک اور پنسل فروخت کرتے ہیں لیکن اس سے ان کا گزارا نہیں ہو رہا۔
انار کلی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے سنہ 1985 میں پاکستانی شہریت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جس کی وجہ سے اب انڈین حکومت دونوں ملکوں کے تعلقات کی خرابی کی بنیاد پر انہیں ویزہ جاری نہیں کر رہی۔
’میرے یہاں حالات بہت خراب ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ واپس اپنے بھائی بہنوں کے پاس جاؤں اور دونوں ملکوں میں آتی جاتی رہوں لیکن مجھے ویزہ نہیں مل رہا۔‘
ان کے بیٹے محمد آصف کا کہنا ہے کہ بہت سی مشکلات کے باوجود وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے خاندان کی بہتر پرورش کریں مگربڑھتی ہوئی مہنگائی اور معذوری کے سبب انہیں گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل دینے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معذوری کے سبب وہ محنت مزدوری نہیں کر پاتے اور سڑک پر پنسل اور ماسک بیچنے پر مجبور ہیں، لیکن اکثر خالی جیب گھر لوٹتے ہیں۔
انار کلی کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی بہنوں نے ان کے ویزے کے لیے کوشش کی ہے لیکن انہیں ویزہ نہیں ملا۔
’وہ خود دونوں ممالک کے خراب تعلقات کے سبب پاکستان نہیں آنا چاہتے۔‘
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے مابین دوہری شہریت کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کے سبب پاکستانی شہریت حاصل کرتے ہی انارکلی کی انڈین شہریت ختم ہو چکی ہے۔
اب انارکلی کو صرف ویزے پر ہی انڈیا بھیجا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی دونوں طرف کی حکومتوں کے تعلقات میں کشیدگی اور انارکلی کی نامکمل شناختی دستاویزات حائل ہیں۔