عمران خان کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد لانگ مارچ کا ایک ایک پہلو سوچ سمجھ کر پلان کیا ہے جو میرے سوا کوئی نہیں جانتا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گذشتہ ساڑھے چار ماہ سے مسلسل پی ڈی ایم حکومت کے خلاف بڑے لانگ مارچ کے اعلانات کر رہے ہیں۔
تاہم وہ تاریخ دینے میں مسلسل تامل سے کام لے رہے ہیں جس سے ان کے اتحادی شیخ رشید بھی پریشان نظر آتے ہیں۔
پیر کو شیخ رشید کے حلقے راولپنڈی میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’اسلام آباد لانگ مارچ کا ایک ایک پہلو سوچ سمجھ کر پلان کیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ’میری ٹیم سمیت کوئی نہیں جانتا کہ میں نے کیا کرنا ہے۔‘
دوسری جانب حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ اس سلسلے میں وزارت داخلہ میں ہونے والے ایک اجلاس میں دارالحکومت میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
پولیس کی نفری، ڈرونز اور آنسو گیس کی فراہمی کا اہتمام کر رہی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کہہ چکے ہیں کہ ’عمران خان 12 سے 17 اکتوبر کے درمیان لانگ مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
عمران خان نے اپنے حامیوں کو تاریخ کے حوالے سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا۔ ایک طرف تو وہ 25 مئی کے ادھورے لانگ مارچ کے بعد سے مسلسل اپنی جماعت کو اگلے لانگ مارچ کے لیے تیاری کا کہہ رہے ہیں مگر دوسری طرف ان کی جماعت میں چند قریبی لوگوں سمیت کوئی نہیں جانتا کہ لانگ مارچ کب ہونا ہے۔
پیر کے روز حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمیں پتا ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے لیکن انہیں نہیں پتا کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔‘
آڈیو لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہر جگہ فون ٹیپ ہو رہے ہیں اس لیے کسی سے بھی کوئی پلان ڈسکس نہیں کیا۔‘
راولپنڈی میں ہونے والے اسی اجتماع میں عمران خان کے ساتھ سٹیج پر بیٹھے شیخ رشید بے چینی سے پہلو بدلتے نظر آئے۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین یہ کہتے ہیں کہ وہ مارچ کا اعلان تو کرتے ہیں مگر طاقتور حلقوں سے خفیہ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بعد میں اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ’ انہوں نے پیر کو بھی عمران خان سے مارچ کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے مارچ کا اعلان کر دیں۔
تاہم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم ابھی تیاری کر رہے ہیں چونکہ یہ فائنل کال ہے اس لیے اس کی پوری تیاری ضروری ہے۔‘
ایک سوال پر شیخ رشید نے تسلیم کیا کہ ’لانگ مارچ کے اعلان میں تاخیر سے نقصان ہو رہا ہے‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے پی ٹی آئی ہی بتا سکتی ہے۔‘
اردو نیوز کے مسلسل رابطے کے باوجود پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری اور فرخ حبیب نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین یہ کہتے ہیں کہ عمران خان مارچ کا اعلان تو کرتے ہیں مگر دوسری طرف وہ طاقتور حلقوں سے خفیہ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے این آر او کی تلاش میں وہ گو مگو کا شکار ہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان 12 سے 17 اکتوبر کے درمیان لانگ مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں‘ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔‘
چینل 24 کے پروگرام میں اینکرپرسن نسیم زہرہ کے سوال کے جواب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہماری اطلاعات ہیں کہ آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئیں۔‘
اس حوالے سے گذشتہ کئی دنوں سے اسلام آباد میں افواہیں گردش میں ہیں کہ صدر عارف علوی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی اور نہ ہی عمران خان کی جانب سے ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید میں کمی آئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے اپنے کارکنوں اور پارٹی رہنماؤں کو لانگ مارچ کے حوالے سے بے خبر رکھنے سے اس احتجاج کے موثر ہونے پر بھی فرق پڑ سکتا ہے کیونکہ کارکنوں کو واضح گائیڈلائنز کی ضرورت ہوتی ہے۔
عمران خان شہر شہر جا کر کارکنوں سے وفاداری کے حلف لے رہے ہیں اور انہیں لانگ مارچ کی کال کا انتظار کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ آیا ان کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوگی یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔