تیل پیداوار میں کمی کے فیصلے کو ملتوی کرنے کے منفی اثرات ہوتے: سعودی عرب
تیل پیداوار میں کمی کے فیصلے کو ملتوی کرنے کے منفی اثرات ہوتے: سعودی عرب
جمعرات 13 اکتوبر 2022 5:59
صدر بائیڈن نے اوپیک کے تیل پیداوار میں کمی کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
سعودی عرب نے امریکہ کو آگاہ کیا ہے کہ اوپیک پلس ممالک کی تیل پیداوار میں کمی کا فیصلہ ملتوی کرنے کے دنیا پر منفی اثرات ہوں گے۔
عرب نیوز کے مطابق جمعرات کو سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس حوالے سے وضاحت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مملکت نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنی مسلسل مشاورت کے ذریعے واضح کیا کہ تمام معاشی تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوپیک پلس کے فیصلے کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کرنے کے، جیسا کہ تجویز کیا گیا ہے، منفی اقتصادی نتائج ہوں گے۔‘
سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے اوپیک پلس کے ملکوں کی جانب سے تیل کی سپلائی میں کمی کے فیصلے کے بعد اس پر تنقیدی بیانات کو بھی مسترد کیا ہے۔
پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم کے اراکین اور ان کے اتحادیوں (اوپیک پلس) نے 5 اکتوبر کو یومیہ 20 لاکھ بیرل تیل کی سپلائی میں کمی کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ویانا میں اتحاد کی طرف سے تیل پیداوار میں کٹوتیوں کے اعلان کے بعد اس فیصلے کو دور اندیشی کے برعکس قرار دیا تھا۔
صدر بائیڈن یوکرین میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جنگ کو محدود کرنے کے لیے تیل و گیس کی فروخت سے روس کو فائدہ اٹھانے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ اوپیک پلس اقدام کی وجہ سے سعودی امریکہ تعلقات پر ’اثرات مرتب ہوں گے‘، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی انتظامیہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ تنقید کہ مملکت بین الاقوامی تنازعات میں فریق بن رہی ہے یا امریکہ کے خلاف سیاسی وجوہات کی بناء پر تیل پیداوار میں کٹوتیوں کی حمایت کر رہی ہے، حقائق پر مبنی نہیں اور اوپیک پلس کے فیصلے کو اس کے اقتصادی تناظر سے ہٹ کر سمجھا ہے۔‘
وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اوپیک پلس ممالک کے درمیان معاہدہ متفقہ تھا اور مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو روکنے میں مدد کے لیے طلب اور رسد میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے عالمی معیشت کو تیل کی منڈی کے اتار چڑھاؤ سے بچانے کے مقصد سے ہٹانے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا ہے۔
سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کٹوتیوں کے اعلان کے بعد بلومبرگ کو بتایا تھا کہ ’اس وقت ہماری ترجیح مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی میں استحکام برقرار رکھنا ہے۔‘
اس طرح براہ راست منافعے کو ترجیح دینے کے سوال پر سعودی وزیر نے کہا تھا کہ ’یہ مانترا شاید قابل قبول ہو سکتا اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ ہم جان بوجھ کر قیمتوں کو بڑھانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں اور یہ ہمارے ریڈار پر نہیں، ہمارے ریڈار پر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم مارکیٹوں کو مستحکم رکھیں۔‘
سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’معاشی چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے غیر سیاسی تعمیری بات چیت کی ضرورت ہے، اور اس پر دانشمندی سے غور کرنے کی کہ تمام ممالک کے مفادات کو کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ مملکت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک سٹریٹجک طور پر دیکھتی ہے جو دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کو پورا کرتی ہے۔‘
توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات پر نظر رکھنے والے امریکی ڈیموکریٹس ارکان نے سعودی عرب پر تنقید کی ہے اور ان میں سے بعض نے تو دیرینہ شراکت داروں کے درمیان دفاعی تعاون کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
خیال رہے کہ بدھ کو امریکہ میں تیل کی اوسط قیمت چار ڈالر فی گیلن کے لگ بھگ ریکارڈ کی گئی تھی۔
قبل ازیں سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے کہا تھا کہ ’سعودی عرب، روس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ ہم تیل مارکیٹ کے استحکام کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
عرب نیوز کے مطابق بدھ کو امریکی چینل سی این این کو انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کمی کے حوالے سے حالیہ اوپیک پلس کے فیصلے کا مقصد تیل پیدا کرنے والے ممالک اور صارفین دونوں کو یکساں فائدہ پہنچانا ہے۔‘