لاپتہ بیٹی کی قاتلہ ماں نکلی،’شوہر بیٹی سے پیار کرتا تھا بدلہ لینے کیلئے مارا‘
لاپتہ بیٹی کی قاتلہ ماں نکلی،’شوہر بیٹی سے پیار کرتا تھا بدلہ لینے کیلئے مارا‘
جمعرات 13 اکتوبر 2022 22:26
زین الدین احمد، -اردو نیوز، کوئٹہ
امیر حمزہ کے مطابق پہلے والدہ نے ایک ہمسایہ کو نامزد کیا جسے گرفتار کیا گیا۔ (تصویر: فیض درانی)
بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے غزگی کی رہائشی سات سالہ لاریب ساڑھے چار ماہ قبل اچانک لاپتہ ہوگئی، گھر والوں نے کافی ڈھونڈا، پولیس نے ہمسایہ، رشتہ داروں حتیٰ کہ لاریب کے دادا اور چچا کو بھی حراست میں لے کر تفتیش کی مگر کوئی سراغ نہ مل سکا۔
جب تلاش کی ہرممکن کوشش ناکام ہوگئی تو پولیس نے لاریب کی والدہ سے بھی پوچھ گچھ کرنے کا فیصلہ کیا اور بالآخر چار ماہ اور 19 دن بعد پولیس کو بچی کا سراغ مل گیا مگر وہ زندہ نہ تھی اور اس کی لاش بھی گل سڑچکی تھی۔
پولیس کے مطابق لاریب کو اس کی اپنی ہی سگی والدہ نے گھر کے اندر تین سو فٹ گہرے کنویں (ٹیوب ویل) میں دھکا دے کر قتل کیا اور پھر معاملے کو چھپانے کی خاطر بیٹی کی گمشدگی اور ہمسایہ پر اغوا کا الزام لگایا۔
مستونگ پولیس کے سربراہ ایس پی محمد نعیم اچکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس نے بچی کے جسم کی باقیات، جوتے اورکپڑے کنویں سے برآمد کرلیے ہیں۔
لاریب کو یہ نئے جوتے اور فراک والد نے عید الفطر پر خرید کر دیے تھے۔
نعیم اچکزئی کے بقول نسرین بی بی نے پولیس کو اپنے اعترافی بیان میں بتایا ہے کہ ’نشے کا عادی شوہر مجھے روز مارتا پیٹتا تھا لیکن بیٹی لاریب کو بہت پیار کرتا تھا۔ لاریب بھی باپ کے بہت قریب تھی اس لیے میں نے شوہر سے بدلہ لینے کے لیے بیٹی کو جان سے مار دیا۔‘
نسرین بی بی کے تین اور چار سال کے دو بیٹے بھی ہیں۔ لاریب ان کی سب سے بڑی اولاد تھی۔
ملزمہ نے اپنے بیان میں مزید بتایا ہے کہ وہ شوہر کے مسلسل تشدد اور گھریلو حالات سے تنگ آگئی تھی۔ ’لاریب مجھے باپ کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے دیکھتی تھی لیکن اس کے باوجود جب بھی باپ گھر آتا وہ اس کے گلے لگ جاتی۔‘
نسرین نے پولیس کو بتایا کہ اس نے بیٹی کو کنویں پھینکنے کے بعد باقی دو بچوں اور خود کو بھی جان سے مارنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن سب کچھ منصوبے کے مطابق نہیں کرسکی اس لیے پھر بچی کی گمشدگی کا ڈرامہ رچایا۔
کیس کے تفتیشی افسر امیر حمزہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاریب رواں سال 23 مئی کو اچانک لاپتہ ہوگئی تھی۔ تلاش میں ناکامی کے بعد اس کے والد عبدالخالق نے 22 دن بعد 15 جون کو رپورٹ درج کرائی۔
بچی کی والدہ نے الزام اپنے ہمسایہ پر عائد کیا اور کہا کہ ماضی میں شوہر کا ہمسایوں سے جھگڑا ہوچکا ہے اس لیے انہوں نے بچی کو اغوا کیا۔
امیر حمزہ کے مطابق پہلے انہوں نے ایک ہمسایہ کو نامزد کیا ہم نے اسے گرفتار کیا اس سے تفتیش کی مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اس کے بعد بچی کے والدین نے ہمسایہ کے تین مزید رشتہ داروں کو نامزد کیا۔ پولیس نے انہیں بھی حراست میں لیا۔
تفتیش میں تمام کوششوں کے باوجود کچھ پتہ نہیں چلا۔ عدالت نے حراست میں لیے گئے افرادکو جیل بھیج دیا بعد میں ان کی ضمانت ہوگئی۔
تفتیشی افسر کے بقول والدہ نے اس دوران یہ بیان دیا کہ لاریب خضدار سے آئے ہوئے دادا کا پیچھا کرتے ہوئے گھر سے باہر نکلی اور پھر لاپتہ ہوئی۔
پولیس نے خضدار میں بچی کے دادا اور چچا کو حراست میں لیا اور ان سے پوچھ گچھ کی مگر سب کوششیں بے سود رہیں۔ اس کے بعد شک کی بنا پر پولیس نے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں بھی رشتہ داروں سے پوچھ گچھ کی۔
ایس پی نعیم اچکزئی نے بتایا کہ پولیس کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہورہی تھیں۔ گھر والے ہمیشہ الزام ہمسایوں پر لگاتے لیکن ہمارا ذہن یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ماضی میں ہونے والی معمولی تلخی پر کوئی کیوں اتنا بڑا قدم اٹھاتا۔
انہوں نے بتایا کہ کئی ماہ کی کوششوں کے بعد بھی جب گھتی نہیں سلجھی تو ہم نے بچی کی والدہ سے تفتیش کرنا کا فیصلہ کیا کیونکہ تمام شک و شبہات اس کی طرف جارہے تھے۔
ایس پی پولیس کے مطابق جب بھی ہم کیس کے سلسلے میں گھر جاتے تو بچی کی والدہ خاموش اور گم سم رہتی اور کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیتی۔ ’پولیس نے نسرین بی بی سے پوچھا کہ بچی کو ڈھونڈنے کے لیے آپ ہمسائیہ کے گھر گئیں تو اس نے انکار میں جواب دیا یہی سے میرے ذہن میں بچی کی والدہ سے متعلق شک مزید مضبوط ہوگیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مختلف طریقے اپنائے۔ خضدار میں رشتہ داروں کے محلوں میں بچوں سے بھی پوچھا کہ آپ نے ایسی کوئی لڑکی دیکھی ہے۔ پھر خاتون کے کوئٹہ میں والدہ کے گھر سے اپنے طریقے سے معلوم کرایا تو پتہ چلا کہ یہ کسی اغوا کا کیس نہیں بلکہ گھر کے اندر کا ہی معاملہ ہے۔
تفتیشی افسر امیر حمزہ کے مطابق ملزمہ سے جب بھی پوچھ گچھ کی جاتی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ آخر 8 اکتوبر کو ہم نے اسے ایک ماں ہونے کا احساس دلایا تو وہ جذباتی ہوگئی اور رو پڑی اور کہا کہ ہاں مجھ سے یہ غلطی ہوگئی۔
ملزمہ نے پولیس کو بتایا کہ ’لاریب جب گھر کے صحن میں قائم کنویں کے قریب گئیں تو میں نے پیچھے سے دھکا دے دیا۔‘
ایس پی مستونگ محمد اچکزئی نے بتایا کہ گھر کے اندر اس پرانے کنویں میں خشک ہونے کے بعد بورنگ کی گئی۔ بچی تین سو فٹ گہری بورنگ میں گرائی گئی تھی۔ ہم نے مشنری منگوا کر بڑی مشکلوں سے جوڈیشل مجسٹریٹ سمیع اللہ بلوچ کی موجودگی میں ملزمہ کی نشاہدہی پر بدھ کو بچی کی باقیات کو نکالا۔
نعیم اچکزئی کے مطابق جب بچی کے کپڑے اور جوتے باہر نکلے تو والد دھاڑے مار کر رویا اور تصدیق کی کہ یہ اسی کی بیٹی کے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باقیات میں بچی کا سر، دانت ، بال وغیرہ ملے ہیں جنہیں ڈی این اے کے لیے کوئٹہ بھیج دیا گیا ہے جبکہ ملزمہ کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے 164 کا بیان( اعتراف جرم) بھی ریکارڈ کرلیا گیا ہے۔
خاتون کے شوہر عبدالخالق کے قبیلے ملازئی کے رہنما سکندر ملازئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس کیس کی گتھی سلجھ ہی نہیں رہی تھی، سب پریشان تھے ، پولیس کبھی ہمسایے کو لے جاتی کبھی بچی کے رشتہ داروں کو ۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس حل کرنے میں سیشن جج مراد علی بلوچ اور جوڈیشل مجسٹریٹ مستونگ سمیع اللہ بلوچ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
سکندر ملازئی کا کہنا تھا کہ واقعہ کی بڑی وجہ غربت اور نشے کی لت ہے۔ ملزمہ کا شوہر نشے کا عادی اور بے روزگار ہے۔ کچے اور خستہ حال گھر کے کمروں میں آپ کو چٹائی تک نہیں ملے گی، بجلی ہے اور نہ گیس۔
’ایسے میں اگر شوہر نشے اور جوئے کا عادی ہوں اور تشدد بھی کرتا ہوں تو خاتون کی ذہنی حالت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔‘