پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ضمنی انتخابات میں چھ نشستوں پر کامیابی اور پی ڈی ایم کے امیدواروں کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں شکست کے بعد پاکستان کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔
جہاں ایک طرف تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے عمران خان کی مقبولیت کو عوامی سند ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہیں حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ نئے انتخابات کے لیے ٹائم فریم بھی دیا جائے۔
مزید پڑھیں
-
ضمنی انتخابات میں جیت، عمران خان نے اپنا ہی ریکارڈ کیسے توڑا؟Node ID: 709631
-
کیا پنجاب مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے نکل رہا ہے؟Node ID: 709636
-
کراچی میں عمران خان کو شکست دینے والے عبدالحکیم بلوچ کون ہیں؟Node ID: 709756
حکمران اتحاد کے امیدواروں کی شکست کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے انتخابی اتحاد کا مستقبل کیا ہوگا اور شکست کے باوجود حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنا شہباز شریف کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہوگا۔
عموماً کسی بھی انتخاب میں اتحادی امیدواروں کی شکست کے بعد ہارنے والی جماعت کی جانب سے اپنے اتحادیوں پر عدم تعاون کا الزام سامنے آتا ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات کے بعد اگرچہ کسی جماعت کی نے اپنے اتحادیوں پر الزامات نہیں لگائے لیکن مقامی سطح پر صحافیوں اور سیاسی کارکنان نے اتحادی جماعتوں کے درمیان رابطوں اور تعاون کے فقدان کی نشاندہی کی ہے۔
شہباز شریف کے لیے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا کتنا بڑا چیلنج ہے؟
اگرچہ پی ڈی ایم جماعتوں نے اس اتحاد کے قیام کے وقت ہی اسے سیاسی اتحاد قرار دیا گیا تھا اور تمام جماعتوں اور ان کے قائدین نے واضح کیا تھا کہ یہ اتحاد انتخابی اتحاد نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ مستقبل میں تمام جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیں گی۔
اس اتحاد کے بننے کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن تو لڑے لیکن ایک دوسرے کے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہیں کیے۔ اس سے یہ تاثر ملنے لگا ہے کہ یہ جماعتیں مستقبل میں انتخابی اتحاد کی طرف جا سکتی ہیں۔

اس حوالے سے تجزیہ کار افتخار احمد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سیاسی طور پر مستقبل میں کیا طریقہ اختیار کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ تو تب ہوگا جب انتخابات قریب آئیں گے اور اس وقت حالات کیا ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں کسی اتحادی کی وجہ سے کسی امیدوار کو شکست نہیں ہوئی بلکہ سب کو خود پتہ ہے کہ وہ کیوں ہارے ہیں۔ اے این پی اگر چارسدہ سے ہار جاتی ہے تو اس میں جے یو آئی کا کوئی قصور نہیں۔ اگر جے یو آئی چارسدہ سے ہار جائے تو اس میں اے این پی کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔‘
افتخار احمد مزید نے مزید کہا کہ غلام بلور کو تو انتخاب لڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، انہیں الیکشن میں کھڑا کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔
’ایک ایسے وقت میں جب نوجوان نسل کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ سیاستدان چور ہیں اور بتانے والا عمران خان ہے، تو نوجوانوں کو کیا معلوم کہ غلام احمد بلور کون ہے؟ ان کی دہشت گردی کے خلاف کیا قربانیاں ہیں؟‘
تجزیہ کار رانا غلام قادر کے مطابق حکمران اتحاد کو اس الیکشن کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں اضافی مل گئی ہیں اس لیے اتحادیوں میں انتخابی نتائج کو لے کر کوئی بے چینی نہیں ہوگی، تاہم عمران خان کی مقبولیت ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے، جس سے نمٹنے اور پنجاب میں ن لیگ کی شکست پر ان کو اسباب اور عوامل پر غور کرتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی ضرور بنانی چاہیے۔
نواز شریف کی واپسی سے عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ ممکن ہے؟
ضمنی انتخابات کے بعد ن لیگی حلقوں میں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ پارٹی قیادت کے لیے نواز شریف کو ملک میں موجود ہونا چاہیے۔

تجزیہ کار عامر الیاس رانا کے مطابق ’نواز شریف وطن واپس آئیں گے۔ ان کو مریم نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت کے فیصلے کے تفصیلی فیصلے کا انتطار ہے۔ جونہی فیصلہ آئے گا اس کے بعد وہ راہداری ضمانت لے کر وطن واپس پہنچ جائیں گے اور اس بات کا بھی واضح امکان ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی سزا بھی ختم ہو جائے گی۔‘
تاہم تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق ’نواز شریف واپس نہیں آ رہے۔ باہر بیٹھ کر سیاست کرنے والوں کے ساتھ وہی حشر ہوتا ہے جو فیصل آباد کی نشست پر ن لیگی امیدوار کا ہوا ہے کہ وہ چار سال ملک سے باہر رہے اور انتخابات کے لیے واپس آ گئے۔ ان کے مطابق الیکشن اب ایک سائنس ہے، یہ دو جمع دو چار ہے۔ اس کو عوام کے اندر رہ کر منظم انداز سے لڑنا پڑے گا۔‘
ملتان کے الکیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہاں دو اشرافیہ کے درمیان مقابلہ ہوا ہے۔
’ایک کی بیٹی کراچی میں بیٹھ کر ملتان سے الیکشن جیتنا چاہتی تھی اور دوسرے کے بیٹے نے ملتان کی گلی محلوں میں گھوم گھوم کر لوگوں سے مل کر ووٹ مانگ مانگ کر کامیابی سمیٹ لی۔‘
کیا عمران خان اسمبلیوں میں واپس آئیں گے؟
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات کے بعد پارٹی رہنما فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں واضح طور پر انتخابات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ عوام نے دو بیانیے چنے، پہلا پاکستان کی خود مختاری اور دوسرا نئے انتخابات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ’آج حکومت اور اداروں کی لیڈرشپ نے سر جوڑے اور عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے نئے انتخابات کی طرف بڑھیں۔ عدالتوں کو بھی عوام کی عدالت کا احترام کرنا چاہیے اورسیاسی فیصلے عوام کو کرنے دیں۔‘
