Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف کے لیے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا کتنا بڑا چیلنج؟

ضمنی انتخاب میں پی ڈی ایم نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار نہیں کھڑے کیے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ضمنی انتخابات میں چھ نشستوں پر کامیابی اور پی ڈی ایم کے امیدواروں کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں شکست کے بعد پاکستان کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔  
جہاں ایک طرف تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے عمران خان کی مقبولیت کو عوامی سند ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہیں حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ نئے انتخابات کے لیے ٹائم فریم بھی دیا جائے۔  
حکمران اتحاد کے امیدواروں کی شکست کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے انتخابی اتحاد کا مستقبل کیا ہوگا اور شکست کے باوجود حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنا شہباز شریف کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہوگا۔  
عموماً کسی بھی انتخاب میں اتحادی امیدواروں کی شکست کے بعد ہارنے والی جماعت کی جانب سے اپنے اتحادیوں پر عدم تعاون کا الزام سامنے آتا ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات کے بعد اگرچہ کسی جماعت کی نے اپنے اتحادیوں پر الزامات نہیں لگائے لیکن مقامی سطح پر صحافیوں اور سیاسی کارکنان نے اتحادی جماعتوں کے درمیان رابطوں اور تعاون کے فقدان کی نشاندہی کی ہے۔

شہباز شریف کے لیے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا کتنا بڑا چیلنج ہے؟  

اگرچہ پی ڈی ایم جماعتوں نے اس اتحاد کے قیام کے وقت ہی اسے سیاسی اتحاد قرار دیا گیا تھا اور تمام جماعتوں اور ان کے قائدین نے واضح کیا تھا کہ یہ اتحاد انتخابی اتحاد نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ مستقبل میں تمام جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیں گی۔
اس اتحاد کے بننے کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن تو لڑے لیکن ایک دوسرے کے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہیں کیے۔ اس سے یہ تاثر ملنے لگا ہے کہ یہ جماعتیں مستقبل میں انتخابی اتحاد کی طرف جا سکتی ہیں۔  

ضمنی انتخابات میں عمران خان کو چھ نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے تجزیہ کار افتخار احمد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سیاسی طور پر مستقبل میں کیا طریقہ اختیار کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ تو تب ہوگا جب انتخابات قریب آئیں گے اور اس وقت حالات کیا ہوں گے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں کسی اتحادی کی وجہ سے کسی امیدوار کو شکست نہیں ہوئی بلکہ سب کو خود پتہ ہے کہ وہ کیوں ہارے ہیں۔ اے این پی اگر چارسدہ سے ہار جاتی ہے تو اس میں جے یو آئی کا کوئی قصور نہیں۔ اگر جے یو آئی چارسدہ سے ہار جائے تو اس میں اے این پی کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔‘
افتخار احمد مزید نے مزید کہا کہ غلام بلور کو تو انتخاب لڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، انہیں الیکشن میں کھڑا کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔
’ایک ایسے وقت میں جب نوجوان نسل کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ سیاستدان چور ہیں اور بتانے والا عمران خان ہے، تو نوجوانوں کو کیا معلوم کہ غلام احمد بلور کون ہے؟ ان کی دہشت گردی کے خلاف کیا قربانیاں ہیں؟‘  
تجزیہ کار رانا غلام قادر کے مطابق حکمران اتحاد کو اس الیکشن کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں اضافی مل گئی ہیں اس لیے اتحادیوں میں انتخابی نتائج کو لے کر کوئی بے چینی نہیں ہوگی، تاہم عمران خان کی مقبولیت ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے، جس سے نمٹنے اور پنجاب میں ن لیگ کی شکست پر ان کو اسباب اور عوامل پر غور کرتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی ضرور بنانی چاہیے۔  

نواز شریف کی واپسی سے عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ ممکن ہے؟  

ضمنی انتخابات کے بعد ن لیگی حلقوں میں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ پارٹی قیادت کے لیے نواز شریف کو ملک میں موجود ہونا چاہیے۔

کراچی سے پی پی پی کے عبدالحکیم بلوچ نے عمران خان کو شکست دی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تجزیہ کار عامر الیاس رانا کے مطابق ’نواز شریف وطن واپس آئیں گے۔ ان کو مریم نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت کے فیصلے کے تفصیلی فیصلے کا انتطار ہے۔ جونہی فیصلہ آئے گا اس کے بعد وہ راہداری ضمانت لے کر وطن واپس پہنچ جائیں گے اور اس بات کا بھی واضح امکان ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی سزا بھی ختم ہو جائے گی۔‘
تاہم تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق ’نواز شریف واپس نہیں آ رہے۔ باہر بیٹھ کر سیاست کرنے والوں کے ساتھ وہی حشر ہوتا ہے جو فیصل آباد کی نشست پر ن لیگی امیدوار کا ہوا ہے کہ وہ چار سال ملک سے باہر رہے اور انتخابات کے لیے واپس آ گئے۔ ان کے مطابق الیکشن اب ایک سائنس ہے، یہ دو جمع دو چار ہے۔ اس کو عوام کے اندر رہ کر منظم انداز سے لڑنا پڑے گا۔‘   
ملتان کے الکیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہاں دو اشرافیہ کے درمیان مقابلہ ہوا ہے۔
’ایک کی بیٹی کراچی میں بیٹھ کر ملتان سے الیکشن جیتنا چاہتی تھی اور دوسرے کے بیٹے نے ملتان کی گلی محلوں میں گھوم گھوم کر لوگوں سے مل کر ووٹ مانگ مانگ کر کامیابی سمیٹ لی۔‘  

کیا عمران خان اسمبلیوں میں واپس آئیں گے؟  

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات کے بعد پارٹی رہنما فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں واضح طور پر انتخابات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ عوام نے دو بیانیے چنے، پہلا پاکستان کی خود مختاری اور دوسرا نئے انتخابات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ’آج حکومت اور اداروں کی لیڈرشپ نے سر جوڑے اور عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے نئے انتخابات کی طرف بڑھیں۔ عدالتوں کو بھی عوام کی عدالت کا احترام کرنا چاہیے اورسیاسی فیصلے عوام کو کرنے دیں۔‘  

پی ڈی ایم نے واضح کیا تھا کہ یہ انتخابی نہیں سیاسی اتحاد ہوگا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس تمام کے باوجود اس وقت یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے تو اب ان کو اسمبلی میں واپس جانا چاہیے۔  
تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق ’پورا سال احتجاج اور جلسے جلوس کرنا ممکن نہیں ہے تحریک انصاف نومبر کی تعیناتی کے بعد اسمبلی میں جائے گی، عمران خان قاسم سوری کو قائد حزب اختلاف بنائیں گے اور حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان کی مقبولیت کا بھنڈا پھوٹ گیا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان ضمنی انتخابات میں عمران خان کو ووٹ دینے والوں نے بھی کوئی بڑا جوش و خروش نہیں دکھایا۔‘
’عمران خان خود امیدوار تھے اس کے باوجود وہ کچھ حلقوں میں بہت کم لیڈ سے جیتے اور کراچی میں تو ان کو شکست ہوئی۔ اور لوگ اس امیدوار کو کریڈٹ ہی نہیں دے رہے جس نے عمران خان کو ہرایا ہے جبکہ سیٹ بھی ان کی اپنی چھوڑی ہوئی تھی۔ دوسرے حلقے میں الطاف حسین کے بائیکاٹ کا ان کو فائدہ ہوا۔ اس کے باوجود اگر وہ اسمبلیوں میں نہیں جاتے تو وہ سسٹم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔‘  

شیئر: