Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہ زیب قتل کیس میں سپریم کورٹ کا شاہ رخ جتوئی کو رہا کرنے کا حکم

2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے بدلے صلح نامے کے بعد شاہ رخ جتوئی کو معاف کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپر یم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں سزا یافتہ شاہ رخ جتوئی اور دیگر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہوچکا ہے۔ ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ قتل کے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔ 
دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ملزمان پر لگائی ہوئی انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا۔
اس کیس میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ نواب سجاد غلام مرتضٰی کو عمر قید سنائی گئی تھی۔  
سندھ ہائی کورٹ نے مارچ 2019 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چاروں ملزمان کو عمر قید سنا دی تھی۔ 
اس وقت بھی ملزمان کے وکیل کی جانب سے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فریقین میں صلح ہوگئی ہے لیکن پروسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت فریقین صلح نہیں کرسکتے۔ جس کے بعد عدالت نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔  
سپریم کورٹ کے باہر شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقتول کے خاندان کی شاہ رخ جتوئی سے صلح ہو گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں خاندانوں کے آپس میں تعلقات اچھے ہوگئے ہیں۔
مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شاہ رخ قتل میں ملوث تھا یا نہیں، اب صلح ہوگئی ہے تو مزید بات نہیں کرنی چاہیے۔‘

2012 میں شاہ زیب خان کو کراچی میں قتل کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)

ملزمان نے عمر قید کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔
شاہ زیب خان کو 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی کے ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے بدلے صلح نامے کے بعد شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔
فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔

شیئر: